آج بھی ایسے افراد کی کمی نہیں ہے جو جمہوریت کو اسلام کے منافی سمجھتے ہیں۔ جمہوریت میں چونکہ اکثریت کی حکومت ہوتی ہے جمہوریت مخالف قرآن پاک کی ان آیات کا حوالہ دیتے ہیں جن میں یہ کہا گیا ہے کہ ”اکثر لوگ نادان ہیں“ ”اکثر لوگ نہیں جانتے“۔ یہ آیات اس وقت نازل ہوئیں جب مسلمان اقلیت میں تھے اور غیر مسلم اکثریت میں تھے۔ اگر جمہوریت مخالف افراد کی یہ دلیل تسلیم کرلی جائے کہ قرآن اکثریت کو نادان اور لاشعور کہتا ہے تو پاکستان میں اس مذہبی یا سیاسی جماعت کو حکومت کرنے کا حق دے دینا چاہیے جو اقلیت میں ہو۔ پاکستان کے معروف قانون دان اور دانشور ایس ایم ظفر نے اپنی کتاب ”عوام، پارلیمنٹ، اسلام“ میں اسلام اور جمہوریت کے بارے میں مستند ، سنجیدہ اور فکری تجزیہ پیش کیا ہے جس کی روشنی میں آج کا کالم ترتیب دیا گیا ہے لہذا اس کالم کو ”اسلام میں جمہوریت کی کہانی کچھ میری کچھ ایس ایم ظفر کی زبانی“ تصور کیا جائے۔ قرآن پاک میں اسلام کے سیاسی نظام کے بارے میں واضح تصور موجود نہیں ہے البتہ ایسے بنیادی اشارے ضرور ملتے ہیں جن سے اخذ کیا جاسکتا ہے کہ جمہوری نظام قرآن اور سیرت کے قریب ہے۔ سورة آل عمران کی آیت 104 میں ارشاد ربانی ہے ”اور اپنے کام آپس کے مشورے سے کرتے ہیں“۔ سورة المائدہ کی آیت نمبر 101 میں درج ہے ”اے لوگو جو ایمان لائے ہو ایسی باتیں نہ پوچھا کرو جو تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں“۔ قرآن پاک میں بہت سے امور کے بارے میں خاموشی اختیار کی ہے۔ پروفیسر محمد عثمان نے اس خاموشی کو ”سکوت حکیمانہ“ قرار دیا۔ رسول اللہ نے سیاسی، عسکری، معاشی اور سماجی نوعیت کے امور صحابہ کرام کی مشاورت سے انجام دئیے۔
حضور اکرم نے کسی کو اپنا خلیفہ نامزد نہ کیا اور یہ ذمے داری امت پر چھوڑ دی تاکہ وہ مشاورت سے اپنا خلیفہ منتخب کرے تاکہ خلفیہ عوام کو جوابدہ ہو۔ مشہور محقق ڈاکٹر طہٰ حسین لکھتے ہیں کہ رسول اللہ کی خلیفہ کے بارے میں کوئی وصیت ہوتی تو مسلمان ثقیفہ بنی ساعدہ میں اجتماع کرکے خلیفہ کے بارے میں مشاورت اور مکالمہ نہ کرتے۔ اگر حضور اکرم کسی کو خلیفہ مقرر کردیتے تو ہر خلیفہ کو اپنا جانشین نامزد کرنے کا اختیار مل جاتا تو خاندانی وراثت کا سلسلہ چل نکلتا جو مشاورت کے جمہوری اصولوں کے منافی ہوتا۔ ثقیفہ بنی ساعدہ کی مجلس مشاورت میں انصار نے فیصلہ کرلیا کہ ان کے خلیفہ سعد بن عبادہؓ ہوں گے۔ انصار کا مو¿قف یہ تھا کہ خلافت ان کا حق ہے۔ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمر فاروقؓ نے دلیل دی کہ قریش چونکہ عرب میں معروف ہیں اور اسلامی ریاست وسعت اختیار کررہی ہے لہٰذا خلیفہ قریش میں سے ہونا چاہیے تاکہ وہ وسعت پذیر ریاست کا نظام چلاسکے ۔ مشاورت اور افہام و تفہیم کے بعد انصار اور مہاجرین نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو اپنا خلیفہ تسلیم کرلیا۔ انہوں نے مسجد نبوی میں بیعت عام لی۔ یہ ایک جمہوری فیصلہ تھا جس کے ذریعے اسلام کے نظام سیاست میں جمہوریت کی بنیاد رکھ دی گئی۔ اس اہم موڑ پر تین گروہ (انصار، مہاجرین، اہل بیت) سامنے آئے جنہوں نے خلافت اپنا استحقاق جانا۔ شبلی نعمانی نے ان گروپوں کو ابتدائی دور کی سیاسی جماعتیں قراردیا ہے۔
اسلام کے پہلے خلیفہ نے اقتدار سنبھالنے کے بعد جو خطبہ دیا اس میں ”مساوات“ اور ”احتساب“ کو نظام سیاست کے بنیادی اصول قراردیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے اپنے جانشین کے لیے رفقاءکی مشاورت کے بعد حضرت عمرؓ کے نام کی سفارش کی تھی۔ حضرت عمرؓ کے نام کو مسجد نبوی میں موجود مسلمانوں کے سامنے پیش کیا گیا اور ان کی تائید حاصل کی گئی۔ اسلامی مو¿رخین اور مفکرین کے مطابق خلفائے راشدین اور صحابہ کرام کا متفقہ تصور یہ تھا کہ خلافت ایک انتخابی منصب ہے جسے مسلمانوں کی مشاورت اور ان کی آزادانہ رائے سے قائم ہونا چاہیئے۔ حضرت عمرؓ کا انتخاب میرٹ پر کیا گیا۔ حضرت عمرؓ نے اپنے جانشین کے انتخاب کے لیے ایک کونسل قائم کی جس میں حضرت علیؓ، حضرت عثمانؓ، عبدالرحمن بن عوفؓ، سعد بن ابی وقاصؓ، زبیر عوامؓ اور ابو طلحہ بن عبداللہؓ شامل تھے۔ حضرت عمرؓ نے اپنے بیٹے عبداللہ کو اس کونسل کا مشیر مقرر کیا ان کو ووٹ کا حق نہیں تھا۔ عبداللہ بن عوف ؓ نے مسلمانوں سے خلیفہ کے بارے میں مشاورت کی اور مسجد نبوی میں مسلمانوں کا اجلاس طلب کرکے ان کی تائید اور رضامندی سے حضرت عثمانؓ کا نام بطور خلیفہ پیش کیا۔ مسلمانوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔ حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد صحابہ نے حضرت علیؓ کو خلیفہ بنایا۔ طبری کی روایت کے مطابق حضرت علیؓ نے فرمایا ”میری بیعت خفیہ طریقے سے نہیں ہوسکتی یہ مسلمانوں کی مرضی اور مشاورت سے ہونی چاہیے۔حضرت علیؓ کا انتخاب مسجد نبوی میں کھلی بیعت کے ذریعے کیا گیا۔ مولانا مودودی لکھتے ہیں ”اسلام کا جمہوریت کے اس اصول سے اتفاق ہے کہ حکومت کا بننا، بدلنا اور چلایا جانا عوام کی رائے سے ہونا چاہیے“۔
اسلامی تاریخ کے مورخ اور مفکر عمومی طور پر متفق ہیں کہ خلفائے راشدین کا انتخاب مشاورت سے ہوا جو قرآن کی روح کے مطابق تھا۔ مشاورت اگرچہ حالات کے مطابق محدود تھی مگر اس عمل کو کسی صورت آمریت کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ جمہوریت پر مبنی سیاسی نظام ہی قرآن و سیرت کے اصولوں کے قریب ترین ہے البتہ مسلمانوں کے لیے لازم ہے کہ وہ جمہوریت کا جو ماڈل تشکیل دیںوہ اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق ہو۔ علامہ اقبال نے قائداعظم کے نام ایک خط میں تحریر کیا ”اسلام کے قانونی اصولوں کے مطابق کسی مناسب شکل میں سماجی جمہوریت کو قبول کرلینا کوئی انقلاب نہیں ہے بلکہ اسلام کی اصل روح کی جانب لوٹنا ہے“۔ علامہ اقبال نے اپنے ایک لیکچر میں تحریر کیا۔
”ہمیں چاہئے کہ آج ہم اپنے مو¿قف کو سمجھیں اور اپنی حیات اجتماعیہ کی ازسرنو تشکیل نو کریں تاکہ اس کی وہ غرض و غایت جو ابھی تک صرف جزواََ ہمارے سامنے آئی ہے یعنی اس روحانی جمہوریت کی نشوونما جو اس کا مقصد و منتہا ہے تکمیل کو پہنچ سکے“۔
آج کے دور کے علماءمفکرین اور دانشوروں کا فرض ہے کہ وہ جمہوریت کی مخالفت کرنے کی بجائے پاکستان کے جمہوری ماڈل کو خلفائے راشدین کے فلسفہ سیاست، قائداعظم کے نظریات اور علامہ اقبال کے تصورات کے مطابق ڈھالنے کے لیے تجاویز دیں۔ پاکستان کا جمہوری ماڈل اخلاقیات سے عاری ہوچکا ہے جس کے ذمے دار افراد میں جمہوری نظام نہیں ہے۔ پاکستان کی جمہوریت اشرافیہ کی جمہوریت بن چکی ہے۔ خاندان جمہوری نظام پر قابض ہوچکے ہیں لہذا ایسے افراد اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ جاتے ہیں جو اسلامی اوصاف کے حامل نہیں ہوتے اور اسلام و جمہوریت دونوں کو بدنام کرنے کا باعث بنتے ہیں لہذا لازم ہے کہ پاکستان کے جمہوری نظام میں ایسی تبدیلیاں کی جائیں جن کے نتیجے میں ایسے افراد کو سیاست سے باہر نکال دیا جائے جو مفاد پرست اور بدنیت ہوں اور ان کے اخلاق اور کردار اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق نہ ہوں۔ جمہوریت صرف اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ نہ کرے بلکہ ہر شہری بلاامتیاز اور بلاتفریق جمہوریت کے ثمرات سے مستفید ہوسکے۔ رب کائنات نے قرآن پاک میں فکر اور تدبر کا حکم دیا تھا مگر ہم اپنے عمل کا حساب کرنے سے قاصر ہیں....
آزادی¿ افکار سے ہے ان کی تباہی
رکھتے نہیں جو فکر و تدبر کا سلیقہ
نوٹ:میرے گزشتہ کالم کے حوالے سے پاکستان کے نامور صحافی حامد میر نے فون کرکے سخت اور دو ٹوک الفاظ میں اس جملے کی تردید کی ”ایک ذرائع کے مطابق حامد میر نے مبینہ طور پر ایک بڑے سیاستدان کو بتایا کہ انہوں نے اپنے چینل کے مالک کے اشارے پر قومی سلامتی کے اہم ترین ادارے آئی ایس آئی کا نام لیا تھا“۔ میں حامد میر کی وضاحت کے بعد ان سے معذرت خواہ ہوں۔