کچھ صحافی ایسے ہوتے ہیں جنہیں مخالفت برائے مخالفت کے علاوہ کچھ آتا ہی نہیں۔ ظاہری بات ہے بغیر کسی ایجنڈے اور مالی مفاد کے یہ صحافی اپنے قلم کی تلوار تو نہیں چلاتے۔ ایسے ہی کچھ صحافی پاک فوج کے خلاف بھی زہر اگلتے رہتے ہیں اور یقیناً اس میں بھی ان کا کچھ نہ کچھ تو مفاد ہوتا ہی ہے۔ یہ وہ صحافی حضرات ہیں جن کے بنک اکا¶نٹوں میںباہر سے پیسے آتے ہیں اور ان صحافیوں کو فون پر ہدایات بھی دیتے ہیں۔ اسی طرح چندصحافی حضرات فوج کے مخالف سیاست دانوں کے ہاتھ میں کھیلتے ہیں‘ ان سے ذاتی فائدے بصورت بھرتیاں و پلاٹ و پرمٹ لے کر فوج پر تنقید کرتے ہیں۔ ظاہری بات ہے حق حلال کی کمائی کرنے والی پاک فوج اپنے محدود وسائل میں ایسے مفاد پرست صحافیوں کو آخرکتنا خوش رکھ سکتی ہے۔ ان حالات میں ان صحافیوں پر سلام ہے کہ جو بغیر کسی خوف اور لالچ کے پاک فوج کے حق میں کالم لکھتے ہیں یہ وہ محب وطن صحافی ہیں جنہوں نے پاک فوج کا دفاع ملکی دفاع کی مانندکیا ہے اور ان پر یقیناً پوری قوم کو فخر ہے۔ ان میں سے ایک ایسے محبت وطن صحافی بھی ہیں جن کے والد محترم مرحوم نے بھی 1971ءکی جنگ میں جان ہتھیلی پر رکھ کر غداران وطن کا خاتمہ کیا۔ پھر ایسے میں حامد میر کابنگلہ دیش میں فرائض انجام دینے والے فوجی افسران کے ٹرائل کا مطالبہ اس محب وطن اینکر کو کیونکر قبول ہو گا۔
دوسری طرف فوج مخالف صحافیوں اور میڈیا تنظیموں کا اصل چہرہ بھی سامنے آگیا ہے۔ ان ملک دشمن صحافیوں کی ٹیلی فون گفتگو کا ریکارڈ‘ ان کی جائیداد اور بنک اکا¶نٹوں کی تفصیلات آئی ایس آئی اور دوسرے اداروں نے اکٹھی کرلی ہیں۔ جن ملک دشمن صحافیوں کے خلاف ناقابل تردید ثبوت مل گئے ہیںان کا معاملہ یہ قومی ادارے خود ہی سنبھال رہے ہیںاور چند دوسرے جن کے خلاف ثبوت مکمل نہیں ہوئے ان کی تحقیقات جاری ہیں اور کچھ کے خلاف قانونی کارروائی بھی کی جا رہی ہے۔ ظاہری بات ہے بغیر ثبوت کے تو کسی کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں کی جاسکتی۔ ماضی میں بھی جو کارروائیاں کی گئیں وہ ٹھوس شواہد کی بنیاد پر کی گئیں۔ (یہ تمام ثبوت جلد ہی عوام کے سامنے رکھے جائیں گے۔ عوام اب مزید انتظار نہیں کرسکتے)۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے نظام عدل میں اتنے سقم ہیں کہ ٹھوس شواہد کے باوجود غداران وطن اور دہشت گردوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے ایسی صورت میں ”غداران وطن “اور دہشت گردوں کو زندہ چھوڑنا کتنا مناسب ہو گا؟
اب بات کرتے ہیں منتخب حکومت کے ساتھ فوج کے تعلقات کی۔ کچھ صحافیوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ یہ موٹے تازے اور ذہنی اور جسمانی طور پر کمزور سیاست دان بغیر ہتھیاروں کی تربیت کے ملک کا دفاع فوج سے بہتر کر سکتے ہیں۔ حالانکہ ان سیاسی نمائندوں کو تو صحیح طرح چلنا یا پریڈ کرنا بھی نہیں آتا۔ اب ذرا سوچئے کہ اگر ملکی دفاع ان غیر تربیت یافتہ سیاستدانوں کے پاس ہوتا تو ہمارا ملک آج کہاں ہوتا؟ سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمارے سارے ایٹم بم تو آج چوری ہو کر دشمن کے ہاتھ پہنچ چکے ہوتے۔ یہ فوجی قیادتیںہی تھیں جنہوں نے ایٹمی ٹیکنالوجی کی سمگلنگ کا بڑی تگ و دو کے بعد سراغ لگایا ۔ کچھ ایجنٹ صحافی ایبٹ آباد آپریشن کو بنیاد بنا کر فوج پر تنقید کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو اتنا لحاظ نہیں کہ امریکہ کی مذمت کرنے اور پاک فوج سے ہمدردی کی بجائے یہ لوگ دشمن کی زبان بولتے ہیں۔ اسی طرح ڈرون حملوں پر بھی سیاسی حکومتیں بزدلی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ جنرل مشرف کے دور میں صرف چندہی ڈرون حملے ہوئے جو امریکی فوج کے خوف کاثبوت تھا جبکہ سیاسی حکومت آتے ہی یہ حملے بڑھ گئے۔
دوسری طرف طالبان کے خلاف جنگ میں سیاسی کمزوری کے باعث طالبان شیر ہوگئے ہیں ان کے خلاف کارروائی کےلئے حکومت کی اجازت کا انتظار کرنا ملکی مفادکے خلاف ہوتا جو پاک فوج کے لیے قابل قبول نہیں تھا۔ حامد میر پر قاتلانہ حملے کے پیچھے بھی بھارت کا ہاتھ ہو سکتاہے۔ ہماری خفیہ ایجنسیوں کو اس پہلو پر بھی تحقیق کرنی چاہیے اور ایک ماہ گزرنے کے بعد ہمارے خفیہ اداروں کو یقیناً اس حوالے سے کچھ ثبوت ضرور ملے ہوںگے جن کو منظر عام پر لانا ضروری ہے۔ مگر ایک بات تو طے ہے کہ اب تک جو ثبوت حامدمیر اور جیو ٹی وی کے خلاف پیمرا میں پیش کئے جا چکے ہیں وہ ایسے ہیں کہ حامد میر کے بچ جانے کو ایک معجزہ ہی کہا جاسکتا ہے۔ اب دیکھیں کہ جیو ٹی وی کے خلاف قانونی شکایت کا جو حشر ہو رہا ہے کیا آئندہ کوئی ایسی شکایات کے چکر میں پڑے گا۔ اس سے پہلے بھی عدالتی کمیشنوں نے سلیم شہزاد اور حیات اﷲ خان کے قتل کی تحقیقات کی مگر یہ عدالتی کمیشن پاک فوج پر لگائے گئے جھوٹے الزامات کو جھوٹا ثابت کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے۔ جب یہ صورتحال ہے تو پھر پاک فوج کے پاس اور کیا راستہ رہ جاتا ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ ملزمان کو عدالت میں پیش کیا جائے۔ لاپتہ افراد کو ظاہر کیاجائے اور فوج کے افسران شامل تفتیش ہوں۔ اگر ہماری سول حکمرانی اور عدل گستری میں دھرتی ماں پر قربان ہونے والوں کے ساتھ انصاف نہیں ہوسکتا تو پھر کیا ان کے لواحقین انصاف کیلئے مارے مارے ہی پھرتے رہیں گے۔
حامد میر پر حملے کے بعد کی صورت حال میں جس طریقے سے مذہبی جماعتوں نے پاک فوج اور آئی ایس آئی کے حق میں جلوس اور ریلیاں نکالی ہیں وہ اس بات کا ٹھوس ثبوت ہیں کہ جنرل مشرف کے دور میں کیے گئے لال مسجد آپریشن کو مذہبی حلقے شاید اتنا برا نہیں سمجھتے۔ کچھ صحافی حضرات ان مذہبی ریلیوں کو بھی آئی ایس آئی کی منصوبہ بندی سمجھتے ہیں۔ ان صحافی حضرات کو ابھی تک رات کو ہی تارے دیکھنے کی عادت پڑی ہے۔ اگر آئین پاکستان میں افواج پاکستان کے براہ راست انتخابات میں حصہ لینے کی گنجائش موجود ہو تو فوج کے امیدواروںکو 1997ءکے انتخابات میں نواز شریف کو ملنے والی دو تہائی اکثریت سے بھی زیادہ ووٹ ملیں ۔ اسی طرح اگر آئی ایس پی آر کے افسران کو صحافت کی اجازت مل جائے تو فوج مخالف تمام اینکر حضرات و صحافی بے روزگار ہو جائیں ۔ ایسے سازشی اور جھوٹے صحافیوں کو آج بھی عوام کی پذیرائی حاصل نہیں۔ محبِ وطن صحافی فوج کے حق میں بات کر کے آج بھی عوام کے دل میں بستے ہیں۔ اﷲ ہمارا حامی و ناصر ہو۔ آمین!