نیٹو کمانڈر کا داعش کی جانب سے پاکستان اور افغانستان میں جنگجو بھرتی کرنے کا دعویٰ اور پیلمائرا میں قتل عام
نیٹو افواج کے کمانڈر جنرل جون ایف کیمیل نے کہا ہے کہ دہشت گرد تنظیم ”داعش“ افغانستان اور پاکستان میں جنگجو بھرتی کررہی ہے‘ مگر وہ ابھی تک پوری طرح اپریشنل نہیں ہوئی۔ گزشتہ روز میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ افغانستان میں 13 سالہ جنگ کے خاتمہ کے بعد جب امریکی قیادت میں نیٹو فورسز لڑاکا مشن ختم کریں گی تو داعش وہاں اپنے راستے بنا سکتی ہے۔ انکے بقول داعش کی جانب سے رقوم استعمال کی جا رہی ہیں جو ہم دیکھ رہے ہیں جبکہ طالبان نئے نام کے ساتھ سامنے آرہے ہیں۔ دوسری جانب ایرانی زمینی افواج کے کمانڈر جنرل احمد رضا پوروستان نے ایرانی پارلیمنٹ کو بتایا ہے کہ اسلامک سٹیٹ ”داعش“ کا ہمسایہ ممالک میں اثرورسوخ بڑھ رہا ہے اس لئے اس گروپ سے مقابلے کیلئے مسلح افواج کو بڑے بجٹ کی ضرورت ہے۔ انکے بقول آج ہم پاکستان اور افغانستان میں داعش کی موجودگی کو دیکھ رہے ہیں۔ ہمیں علاقے میں ایک نئے خطرے کا سامنا ہے کیونکہ دہشت گرد گروپ ہماری سرحدوں کے بالکل قریب ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاسداران انقلاب کو ٹینک‘ ٹرانسپورٹ‘ گاڑیاں خریدنے اور ہیلی کاپٹر اوورہال کرانے کی ضرورت ہے۔
دولت اسلامیہ (داعش) کے نام سے اس جنگجو جہادی تنظیم کا قیام عراق سے امریکی نیٹو فورسز کی واپسی کے بعد عمل میں آیا تھا جس میں امریکی مفادات کے عمل دخل کی باتیں بھی سامنے آئیں تاہم جس طرح امریکی سرپرستی میں فروغ پانے والے افغان مجاہدین نے القاعدہ اور طالبان کا روپ دھار کر خود امریکہ اور خطے کی سلامتی کیلئے خطرات پیدا کئے‘ اب اس سے بھی بڑھ کر داعش علاقائی اور عالمی امن کیلئے سنگین خطرہ اور انسانیت کی تباہی کا اہتمام کرتی نظر آرہی ہے۔ اس تنظیم کی عراق کے علاوہ شام‘ مصر‘ لیبیا‘ یمن‘ تیونس اور دوسری خلیجی ریاستوں میں بھی جڑیں پھیلی ہیں جہاں اس تنظیم کی قتل و غارت گری کی داستانیں عالمی میڈیا پر سنائی دیتی رہتی ہیں۔ عراق میں اس تنظیم نے ہزاروں انسانوں کے قتل عام کے بعد وہاں دولت اسلامی کی حکمرانی قائم کرنے کابھی اعلان کر رکھا ہے جبکہ پاکستان‘ افغانستان‘ ایران میں دہشت گردی کی بعض وارداتوں کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعد اب اس تنظیم کی جانب سے سعودی عرب کے شہر قطیف کی مسجد میں ہونیوالی دہشت گردی کی ذمہ داری بھی قبول کی گئی ہے جس سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ یہ جہادی تنظیم مسلم ممالک میں سرعت کے ساتھ اپنی جڑیں پھیلا رہی ہے جس کی دہشت گردی کی وارداتیں علاقائی ہی نہیں‘ عالمی امن کی تباہی پر بھی منتج ہو سکتی ہیں۔ اس حوالے سے بی بی سی نے اپنی ایک خصوصی رپورٹ میں دنیا کو دولت اسلامیہ (داعش) کے انسانی تباہی پر مبنی عزائم سے آگاہ کیا ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق القاعدہ سے نکلے ہوئے سخت گیر گروہ داعش نے عراق میں مرکزی حکومت کیخلاف برسرپیکار سنّی گروہوں سے کہہ دیا ہے کہ وہ اسلحہ پھینک دیں اور داعش کے ہاتھ پر بیعت کرلیں۔ یہ تنظیم عراق اور شام میں اپنے زیر تسلط علاقوں پر خلافت کے قیام کا اعلان کر چکی ہے جس کے بعد ان علاقوں میں موجود دوسرے متحارب گروہ اب داعش اور عراق کی شیعہ اکثریتی حکومت کے درمیان پھنس گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق داعش کے ساتھ موصل میں ہونیوالے دو روزہ مذاکرات کے بعد داعش نے واشگاف الفاظ میں اعلان کر دیا ہے کہ عراق اور شام کے تمام مسلح گروہ نئی خلافت (دولت اسلامیہ) کے ہاتھ پر بیعت کرکے ہتھیار ڈال دیں اور یہ بات تسلیم کرلیں کہ اب ہتھیار اٹھانے کا اختیار صرف نئی اسلامی ریاست کے جنگجوﺅں کو ہوگا۔ داعش نے گزشتہ تین ہفتوں کے دوران شام اور عراق کے کئی سنّی علاقوں میں اپنی گرفت مضبوط کرلی ہے اور ذرائع کے مطابق اس تنظیم کی جانب سے علاقائی سطح پر نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو پانچ سو ڈالر ماہانہ پر بھرتی کیا جارہا ہے جن کی تعیناتی سے پہلے انہیں دو ہفتے کی فوجی تربیت اور دو ہفتے کی اسلامی تربیت دی جاتی ہے۔ بعض دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دولت اسلامیہ کے جنگجوﺅں نے سیکھ لیا ہے کہ کس طرح اپنی فوجوں اور آلات کو حملوں سے بچایا جائے اس لئے وہ جہاں تک ممکن ہوسکے آبادی والے علاقوں میں عام شہریوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ عراق میں تو داعش خلافت کا اعلان بھی کر چکی ہے جس کے شہر رمادی پر دولت اسلامیہ کا قبضہ مستحکم ہو چکا ہے۔ اگرچہ عراقی سکیورٹی فورسز کی جانب سے گزشتہ روز داعش کا رمادی پر قبضہ چھڑالینے کا دعویٰ کیا گیا ہے‘ تاہم میڈیا رپورٹس سے یہی حقیقت سامنے آرہی ہے کہ رمادی پر بدستور داعش کا ہی قبضہ ہے جس کی وجہ عراقی فوج میں دولت اسلامیہ کے ساتھ جنگ میں عزم کی کمی ہے۔ اس حوالے سے امریکی وزیر دفاع ایشٹن کارٹر کا بھی یہی تجزیہ سامنے آیا ہے کہ صوبہ انبار کے دارالحکومت رمادی میں عراقی افواج کی شکست اسکی شدت پسند تنظیم دولت اسلامی (داعش) کیخلاف لڑنے کے عزم کی کمی کو ظاہر کرتی ہے۔ اسی حوالے سے امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے بھی تبصرہ کیا ہے کہ عراقی فوجی تعداد میں دولت اسلامیہ سے کہیں زیادہ تھے‘ اسکے باوجود انہوں نے پسپائی اختیار کی جس سے داعش کی عسکری مہارت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اسلامی تنظیم حزب اللہ کے رہنماءحسن نصراللہ نے تو داعش کو دنیا کیلئے اتنا بڑا خطرہ قرار دے دیا ہے جس کی دنیا میں کہیں مثال نہیں ملتی۔ اس خطرے کا عندیہ داعش کے ایک جنگجو کے ویڈیو پیغام سے بھی ملتا ہے جس میں اس نے امریکی صدر باراک اوباما کا سر قلم کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ وہ امریکہ کو ایک مسلمان صوبے میں تبدیل کردینگے۔ اس ویڈیو پیغام میں امریکہ‘ فرانس‘ بیلجیئم‘ کردستان اور یورپی ممالک میں حملے کرنے کی بھی دھمکی دی گئی ہے۔ اس تنظیم کی سفاکی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے اپنی ایک رکن خودکش حملہ آور خاتون ساجدہ الریشاوی کی رہائی کیلئے اردن کے پائلٹ معاذ الکساسبہ کو اغواءکیا اور اردن کی جانب سے متذکرہ دہشت گرد خاتون کی رہائی سے انکار پر اس پائلٹ کو بے دردی کے ساتھ زندہ جلا دیا گیا اور اس جنونی فعل کی تصاویر اور کلپس پر مبنی ویڈیو انٹرنیٹ پر جاری کردی گئی۔ گزشتہ روز کی میڈیا رپورٹ کے مطابق شام کے تاریخی شہر پیلمائرا میں داعش کے جنگجوﺅں نے خواتین اور بچوں سمیت چار سو افراد کو قتل کردیا ہے۔ ذرائع کے مطابق داعش نے چار روز قبل اس تاریخی شہر پر قبضہ کرلیا تھا جس کے بعد وہاں شہریوں کا قتل عام کیا گیا۔
داعش کی اس نوعیت کی جنونی سرگرمیوں اور اسکے اعلان کردہ آئندہ کے عزائم پر مسلم ممالک ہی نہیں‘ عالمی قیادتوں کو بھی تشویش میں مبتلا ہونا چاہیے اور اس تنظیم کے بڑھتے ہوئے اثرو نفوذ کو روکنے کا مناسب اور معقول بندوبست کرنا چاہیے۔ اگر نیٹو کمانڈر اور ایرانی زمینی افواج کے کمانڈر داعش کے افغانستان اور پاکستان میں بڑھتے ہوئے اثرات کی نشاندہی کررہے ہیں تو ہمیں اپنی ایجنسیوں کی محض ان رپورٹوں پر مطمئن ہو کر نہیں بیٹھ جانا چاہیے کہ پاکستان میں داعش کا کوئی وجود نہیں ہے۔ اگرچہ سانحہ¿ صفورا کراچی کے حوالے سے ہماری ایجنسیوں کی تحقیقاتی رپورٹوں میں اس دہشت گردی کے پس پردہ محرکات اور ہاتھوں کی نشاندہی کی گئی ہے تاہم داعش کی جانب سے اس دہشت گردی کی ذمہ داری قبول کرنے کے معاملہ سے صرفِ نظر کرنا کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے کے مترادف ہوگا۔ نیٹو کمانڈر نے اگر افغانستان اور پاکستان میں داعش کی جانب سے جنگجو بھرتی کرنے کا دعویٰ کیا ہے تو ان سے اسکی معلومات لی جائیں اور اگر یہاں داعش کی موجودگی کے شواہد پائے جائیں تو فوری اور مو¿ثر ایکشن لے کر اس تنظیم کا قلع قمع کیا جائے۔ جب لال مسجد کے سابق خطیب عبدالعزیز اعلانیہ خود کو پاکستان میں داعش کا نمائندہ قرار دے چکے ہیں اور جامعہ حفصہ کی طالبات ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے داعش سے کمک مانگ چکی ہیں جو ریکارڈ پر موجود ہے تو یہ کہنا حقائق سے دانستہ آنکھیں بند کرنے کے مترادف ہوگا کہ داعش کا یہاں کوئی وجود نہیں ہے۔ ہماری سول اور عسکری قیادتوں کو داعش کے بڑھتے ہوئے اثرونفوذ‘ اسکی کارروائیوں اور اعلانات سے مکمل طور پر باخبر اور اس ناسور کے تدارک کیلئے مستعد و تیار رہنا چاہیے۔ امام کعبہ اس تنظیم سمیت تمام دہشت گرد گروپوں کے خوارج میں شامل ہونے کا فتویٰ دے چکے ہیں تو مسلم قیادتوں کو ان دہشت گرد گروپوں بالخصوص داعش کے ہاتھوں دہشت گردی کے بڑھتے خطرات کی پیش بندی کیلئے ابھی سے کوئی حکمت و تدبر کرلینا چاہیے ورنہ کل کو کوئی بھی مسلم ملک عراق اور شام کی طرح داعش کا یرغمالی بن سکتا ہے۔