ایوانِ صدر کی بارعب اور باوقار عمارت میں پاکستانی قوم کے محسنین یعنی کارکنانِ تحریک پاکستان کاایک اجتماع دل پذیر گذشتہ دنوں منعقد ہوا۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کے ان بے لوث ساتھیوں کو مدعو کرنے کا شرف بذات خود صدر مملکت سید ممنون حسین نے حاصل کیا۔ دراصل جب سے اُنہوں نے ایوانِ صدر میں قدم رکھا ہے‘ تب سے یہ عمارت ایسی اعلیٰ قومی سرگرمیوں کی آماجگاہ بن گئی ہے۔ زیر تذکرہ تقریب یومِ پاکستان کے حوالے سے ایوانِ صدر میں منعقدہ مختلف النوع تقریبات کے سلسلے کی آخری کڑی تھی۔ صدر مملکت نے ملک بھر سے ان ہستیوں کو مدعو کیا تھا جنہوں نے بابائے قوم کی قیادت میں جدوجہد آزادی میں حصہ لیا تھا اور مصائب و آلام کے پہاڑ عبور کرکے اپنے لئے ایک آزاد مملکت حاصل کی تھی۔ اس تقریب کے انعقاد کے لئے تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ نے ایوانِ صدر اور کارکنانِ تحریک پاکستان کے مابین رابطۂ کار کا فریضہ سرانجام دیا تھا۔ تقریب میں تحریک پاکستان کے ایک انتہائی عمر رسیدہ کارکن نیک نقیب اللہ نے بھی شرکت کی جن کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے اور اس وقت ان کی عمر 108برس ہے۔اس تقریب کی خاص بات یہ تھی کہ تمام شرکائے تقریب کو احادیثِ دل بیان کرنے کا موقع فراہم کیا گیا۔ یہ گفت و شنید تین نکات یعنی فروغ تعلیم‘ کردار سازی اور قومی زبان اُردو کو اس کا صحیح مقام دینے پر مرکوز رہی۔ حاضرین اس امر پر متفق دکھائی دیے کہ عہد حاضر میں کوئی ملک اور قوم تعلیم کے بغیر ترقی و خوشحالی کے خواب نہیں بُن سکتی۔ پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کرنے کی خاطر یہاں تعلیم کا فروغ ناگزیر ہے۔ پاکستان جیسی اسلامی نظریاتی مملکت میں تعلیم محض برائے تعلیم نہیں بلکہ ان ارفع مقاصد کے تابع ہونی چاہیے جن کا تعین قائداعظم محمد علی جناحؒ اور علامہ محمد اقبالؒ کے نظریات و تصورات کرتے ہیں۔ کردار سازی کے حوالے سے اُن کا کہنا تھا کہ قائداعظمؒ نے اپنی عظمت کردار کے بل بوتے انگریزوں‘ ہندوئوں‘ سکھوں اور ناعاقبت اندیش وطن پرست مسلمانوں کے ایک گروہ کے خلاف چومکھی لڑائی میں فتح حاصل کی۔ ان کے بدترین مخالف بھی ان کی عظمت کردار کے گواہ تھے۔ لہٰذا قومی سطح پر ایک ایسا لائحہ عمل ترتیب دیا جانا چاہیے جس کے ذریعے قوم بالخصوص نسل نو کی کردار سازی کا مقدس فریضہ سرانجام دیا جاسکے۔ اُردو زبان کے حوالے سے شرکا اس رائے کے حامل تھے کہ آج تک دنیا میں جس قوم نے بھی بامِ عروج حاصل کیا ہے‘ اپنی زبان کو ذریعۂ تعلیم بنا کر ہی حاصل کیا ہے۔ قوم کے مختلف طبقات کے درمیان اتحاد اور افہام و تفہیم پیدا کرنے کا مقصد اپنی قومی زبان کو فروغ دے کر ہی حاصل کیاجاسکتا ہے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے 21مارچ 1948ء کو ڈھاکہ میں جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے بڑے دوٹوک الفاظ میں فرما دیا تھا کہ ’’پاکستان کی سرکاری زبان اُردو ہوگی اور صرف اور صرف اُردو‘ اور اُردو کے سوا اور کوئی زبان نہیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ اُردو زبان اسلامی روایات و ثقافت کے سرمائے سے مالا مال ہے اور اسے پاکستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک بولا اور سمجھا جاتا ہے۔ لہٰذا اب وقت آگیا ہے کہ اُردو زبان کو اس کا صحیح مقام عطا کرنے کے لئے نیک نیتی سے کوششیں بروئے کار لائی جائیں۔
صدر مملکت سید ممنون حسین نے اپنے خطاب میں کہا کہ اس تقریب کے انعقاد کا مقصد اپنے بزرگوں کو یہ باور کرانا ہے کہ پاکستانی قوم نہ صرف اپنے محسنوں کو یاد رکھتی ہے بلکہ ان کی خدمات کو خراج تحسین بھی پیش کرتی ہے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ ایک عظیم الشان شخصیت تھے اور جن افراد نے اُن کا ساتھ دیا‘ وہ بھی عظیم ہیں۔ بابائے قوم کے ان ساتھیوں کی تشریف آوری کی بدولت ایوانِ صدر کو چار چاند لگ گئے ہیں۔انشاء اللہ! ہم بہت جلد قائداعظمؒ اور علامہ محمد اقبالؒ کے تخیلات کے مطابق پاکستان کی تعمیر میں کامیاب ہوجائیں گے۔ پاکستان ایک طویل مدت بعد ترقی و استحکام کے راستے پر گامزن ہوچکا ہے۔ اقتصادی ترقی کے منصوبے کسی ایک جماعت یا گروہ کے لئے نہیں بلکہ پوری قوم کے لئے ہیں۔ اس وقت ہمارا ملک شاندار امکانات کی دہلیز پر کھڑا ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ ان سے فائدہ اٹھانے کی خاطر پوری قوم یکسو ہوجائے۔ چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری کی تکمیل کے بعد پاکستان معاشی لحاظ سے خطے کی ایک اہم طاقت بن کر ابھرے گا۔ پاکستان کی دشمن طاقتیں اس منصوبے کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں کررہی ہیں۔ پوری قوم کو ان سازشوں کے خلاف متحد ہوجانا چاہیے۔ صدر مملکت کا کہنا تھا کہ تعلیم‘ صحت اور ثقافت کو ترجیحی بنیادوں پر فروغ دینا چاہیے تاہم بدعنوانی کا انسداد حکومت کی اوّلین ترجیح ہونی چاہیے تاکہ ملکی ترقی کو یقینی بنایا جاسکے۔ انہوں نے اس امر پر اظہارِ افسوس کیا کہ 2013ء میں ختم ہونے والے پانچ سالوں کے دوران پاکستان نے آٹھ ہزار ارب روپے بطور قرض حاصل کئے مگر کسی نے ملک سے کی جانے والی اس لوٹ مار کے خلاف آواز بلند نہیں کی۔ اُنہوں نے اُردو زبان کو فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیا تاہم کہا کہ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ علاقائی زبانوں کی اہمیت کم کی جارہی ہے۔ انگریزی زبان کی اہمیت اپنی جگہ مگر پاکستان میں ذریعۂ تعلیم اُردو ہونا چاہیے۔ اُنہوں نے بتایا کہ عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد دکن میں میڈیکل کی تعلیم بھی اُردو زبان میں دی جاتی تھی اور وہاں کے فارغ التحصیل ڈاکٹر اپنے پیشے میں بڑا نام کماتے تھے۔
تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن‘ سابق صدر مملکت اور نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین محترم محمد رفیق تارڑ کی قیادت میں ٹرسٹ کے ایک وفد نے بھی اس شاندار تقریب کو رونق بخشی ۔شرکائے تقریب میں نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے وائس چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد‘ سرتاج عزیز‘ چیف جسٹس(ر)میاں محبوب احمد‘ جسٹس(ر) آفتاب فرخ‘ کرنل(ر) اکرام اللہ خان‘ تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے سیکرٹری اور نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے چیف کوآرڈینیٹر میاں فاروق الطاف‘ سجادہ نشین آستانۂ عالیہ چورہ شریف پیر سید محمد کبیر علی شاہ اور نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری شاہد رشید شامل تھے۔ اس موقع پر محترم محمد رفیق تارڑ نے کہا کہ قیامِ پاکستان کے مقاصد جلیلہ کے حصول کے لئے ہمیں محنت کو اپنا شعار بنانا ہو گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی تمام تر توانائیاں پاکستان کو ایک جدید اسلامی‘ جمہوری اور فلاحی مملکت بنانے کے لئے وقف کردیں۔