پاکستان کے تعلیمی نظام میں ایک مسئلہ جو بہت شدت سے محسوس کیا جاتا ہے وہ زبان کا ہے آج تک یہ طے نہیں ہو پا رہا کہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا ضامن اردو میڈیم طریقہ تعلیم بنے گا یا انگلش میڈیم طریقہ تعلیم۔ آیا اردو میڈیم طریقہ تعلیم زیادہ قابلیت کے حامل انسان پیدا کر رہا ہے یا انگلش میڈیم طریقہ تعلیم۔ اس چیز نے ہماری سوسائٹی میں ایک عجیب سے احساس کمتری کو فروغ دیا ہے جس کی وجہ سے آج ہم قابلیت و لیاقت کے معیار زبان دانی پرقائم کرنے لگے ہیں، انگلش بولنے والے کوہر شعبے میں زیادہ پذیرائی ملتی ہے خواہ اس شعبے سے متعلق اس کی قابلیت واجبی سی ہو۔ ہمارے ملک میں زیادہ تر آبادی کا تعلق دیہی علاقوںسے ہے جہاں پر اکثر شرح خواندگی بہت کم ہوتی ہے یا کم از کم اس حد تک نہیں ہوتی جہاں پر لوگوں کو انگریزی زبان پر عبور حاصل ہو۔ وہاں پر بچوں کی ابتدائی تعلیم ان کی مادری زبان میں یا اردو میں ہونی چاہیے۔ اس سلسلے میں پروفیسر انجلینا کیو کو کی ریسرچ بہت اہم ہے جن کا تعلق یونائٹیڈ (United) انٹرنیشنل یونیورسٹی کینیا سے ہے ان کا کہنا ہے کہ جو بچے دیہاتی پس منظرسے تعلق رکھتے ہیں ان کو ان کی مقامی زبان میں جب ابتدائی تعلیم سے روشناس کرایا گیا تو وہ زیادہ شوق و ذوق سے علم کی طرف متوجہ ہوئے کیونکہ بچے کے سیکھنے کا عمل تو گھر سے شروع ہو چکا ہوتا ہے۔ لہذا بچے کو سکول بھیجنا اسی سیکھنے کے عمل کا تسلسل ہوتا ہے۔ اگر بچے کو نئے ماحول کے ساتھ ایک ایسی زبان سے بھی سابقہ پڑے جس کا وہ عادی نہیں تو یہ چیز اس کے سیکھنے کی رفتار پر اثرانداز ہوتی ہے۔ اس صورت میں بچے کے گزشتہ تجربات اور موجودہ سیکھنے کے عمل میں رابطہ نہیں ہو پاتا۔ لہذا بچے کے اسکول میں گھریلو زبان کے استعمال سے بچے کے سیکھنے کے عمل کو مہمیز ملے گی۔ اس کے علاوہ وہ اس طرح کے تعلیمی ماحول میں جہاں بچے کی مادری زبان استعمال کی جا رہی ہے بچے کا دماغ کھلتا ہے وہ بحث مباحثے میں حصہ لیتا ہے سوال پوچھتا ہے جواب دیتا ہے گویا کہ جماعت میں ایک جوش و خروش کا ماحول پیدا ہوتا ہے جہاں پر بچے نئی نئی معلومات حاصل کرتے ہیں اور بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ انگریزی کو ایک مضمون کے طور پرضرور پڑھایا جائے لیکن ہر مضمون کو انگریزی میں ہونا ضروری نہیں۔ پروفیسر انجلینا کا کہنا ہے کہ اس طرح کا طریقہ تعلیم بچوں میں ناصرف خود اعتمادی پیدا کرے گا بلکہ ان کو اپنی اقدار ،روایات اور ثقافت سے بھی قریب رکھے گا۔ لیکن ہمارے ہاں اس کے بر عکس دیکھنے کو ملتا ہے۔ اکثر اس طرح کے سکولوں پر اردو میڈیم کا لیبل لگا کر کم تر ثابت کیا جاتا ہے۔ آج ہمارے نا م نہاد انگلش مینیا(Mania ) نے ہمیں اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ ہمارے بچے اردو سیکھنے پڑھنے اور سمجھنے سے کافی حد تک عاری ہو چکے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارا ادب علم و دانش کا ایسا خزانہ ہے جس میں کئی صدیوں کی دانش، تفکر، روایات، اقدار اور تفافت سموئی ہوئی ہےں اور ڈر یہ ہے کہ آج کی نسل اپنی اردو زبان پر دسترس نہ ہونے کیو جہ سے اس سے محروم رہ جائے گی۔ 1953ءمیں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے ایک رپورٹ پیش کی تھی جس میں یہ تجویز دی گئی تھی کہ بچوں کو ابتدائی جماعتوں میں ان کی مادری زبان میں تعلیم دینی چاہیے کیونکہ اس ادارے کا خیال تھا کہ بہت سے ایسے ممالک جو گوروں کی کالونی رہ چکے ہیں یعنی انگریز کے زیر تسلط رہ چکے ہیں وہ آج بھی ذہنی طو رپر انگریزی کے زیر تسلط ہیں جس کی وجہ سے مقامی زبانیں نہ صرف نظر انداز ہو رہی ہےں بلکہ اپنی افادیت بھی کھوتی جا رہی ہےں لہذا ضروری ہے کہ بدیسی زبان اس قدر اپنے اوپر حاوی نہ کی جائے کہ ہماری اپنی زبان اپنی قدروقیمت کھو بیٹھے اگرچہ حکومتی سطح پر دفتری زبان اردو کو قرار دیا گیا ہے لیکن یہ اقدام کافی نہیں اس کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے ملک کا پڑھا لکھا اور باشعور طبقہ اس خطرے کو محسوس کر ے جو آج ہماری نئی نسل کو اپنی مقامی اور قومی زبان سے دور ہونے کی وجہ سے درپیش ہے جب وہ اپنے ادب اور تاریخ کو پڑھنے اور سمجھنے کے قابل ہی نہیں ہیں تو ہم سمجھ سکتے ہیں کہ ان کی سوچ میں گہرائی اور پختگی کہاں سے آئے گی کیونکہ سوچ کی پختگی اور گہرائی کا تعلق اپنے اصل سے جڑے رہنے سے ہوتا ہے۔ ان کو دنیا کی جتنی زبانیں سیکھ سکتے ہیں سیکھنی چاہیے اورانگریزی زبان پر دسترس ہونابھی ایک اضافی خوبی ہے لیکن یہ سب کچھ اپنی زبان کو نظر انداز کرکے حاصل کرنا بہت بڑی حماقت ہے۔