اسلام آباد (اے این این+بی بی سی) ہائی کورٹ نے عمران فاروق قتل کیس سے متعلق ریمارکس دیئے ہیں کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ مقدمہ سیاسی بنیادوں پر درج کیا گیا ہے۔ جسٹس نورالحق قریشی اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل 2 رکنی بنچ نے معظم خان کی درخواست ضمانت کی سماعت کی، معظم خان کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ ڈاکٹر عمران فاروق برطانیہ میں قتل ہوئے لیکن اس کا مقدمہ پاکستان میں درج کیا گیا، اس مقدمے میں ان کے موکل کو قاتلوں کے سہولت کار کے طور پر گرفتار کیا گیا ہے۔ جب قتل کا واقعہ بیرون ملک ہوا ہے تو ان کے موکل کو کیسے گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ حکومتی وکیل نے کہا کہ سکاٹ لینڈ یارڈ کی ٹیم پاکستان میں ہے، جن سے شواہد کا تبادلہ ہورہا ہے، جو آئندہ 4 سے5 روز میں مکمل ہو جائے گا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ عمران فاروق کے قتل کے چار سال کے بعد پاکستان میں مقدمے کے اندراج سے بادی النظر میں لگتا ہے کہ مقدمہ سیاسی بنیادوں پر درج کیا گیا، بتایا جائے مقدمہ پاکستان میں کیوں درج کیا گیا۔ کیا ایسے کوئی شواہد سامنے آئے ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ ملزم معظم علی کا ڈاکٹرعمران فاروق کے قتل کے مقدمے میں کوئی کردار ہے۔ کیا سکاٹ لینڈ یارڈ نے عینی شاہد لڑکی کا بیان ریکارڈ کیا ہے، کیا برطانیہ میں موجود دیگر گواہوں کے بیانات قلم بند کیے گئے۔ سرکاری وکیل نے استدعا کی فاضل بنچ کی سوالات کے جواب کی تیاری کیلئے وقت دیا جائے۔ بی بی سی کے مطابق سرکاری وکیل نے کہا کہ کسی بھی پاکستانی کے بیرون ملک کسی جرم میں ملوث ہونے پر پاکستان میں کارروائی ہو سکتی ہے اور قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے۔ ملزم کا اقبالی بیان بھی موجود ہے جو انہوں نے اپنی مرضی سے مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ کرایا ہے۔ واضح رہے کہ ایف آئی اے نے مقدمہ میں الطاف حسین کو بھی نامزد کیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ