موجودہ معاشی صورتحال اور بجٹ 2017-18ء

پاکستان نیشنل فورم نے 23 مئی 2017ء کو موجودہ معاشی صورتحال اور بجٹ مالی سال 2017-18ء کے موضوع پر لاہور میں پری بجٹ سیمینار منعقد کیا اور حکومت کے سامنے پنی سفارشات غور کیلئے پیش کیں۔ قومی اہمیت کے اس سیمینار کی صدارت سابق چیف آف نیول سٹاف ایڈمرل یستور الحق ملک نے کی۔ مہمان خصوصی اور KEY NOTE SPEAKER عالمی شہرت یافتہ اور سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر حفیظ اے پاشا نے کی۔ دیگر قابل احترام مقررین میں سابق سپیکر قومی اسمبلی سید فخر امام اور ماہرین جانے پہچانے اکانومسٹ سپریم کورٹ کے سینئر ایڈووکیٹ ڈاکٹر اکرام الحق نے خطاب کیا۔ ماہرین کے خطاب کے بعد آئندہ بجٹ کے مختلف پہلوئوں پر بھرپور حصہ لینے والوں میں سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس فقیر محمد کھوکھر‘ سابق صوبائی محتسب اور چیئرمین پی سی بی جناب خالد محمود‘ بیگم مہناز رفیع‘ سابق کور کمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل نصیر اختر‘ سینئر کالم نویس اور دانشور جناب قیوم نظامی‘ لاہور چیمبر آف کامرس کے سابق صدر اور لائف ممبر جناب جمیل اے ناز اور سینئر سیاستدان و سابق صوبائی وزیر سردار نصر اللہ دریشک اور دفاعی ماہر میجر جنرل ندیم اعجاز کے علاوہ سول سوسائٹی و سابق سینئر امور دفاع کے نمائندوں نے بجٹ کے بارے میں اپنی اپنی تجاویز پیش کیں۔مجموعی طور پر تمام مقررین نے اس حقیقت پر افسوس کا اظہار کیا کہ قیام پاکستان سے لیکر آج تک مختلف ادوار میں قوم اقتصادی سطح پر چوٹی کے ماہر وزراء خزانہ سے بدقسمتی سے محروم چلی آ رہی ہے۔ جس کی وجہ سے اقتصادی اور معاشی طور پر پاکستان ترقی کی شاہراہ پر گامزن نہیں ہو سکا۔ معاشی و اقتصادی عدم استحکام کی وجہ سے ملک میں سیاسی عدم استحکام نے بھی جنم لیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی اپنی جیب میں بعض کھوٹے سکوں کا اعتراف کیا تھا۔ جس کے باعث 1950ء کی دہائی کے اوائل میں ہی لاہور میں مارشل لاء کا نفاذ ہوا اور اسی دہائی کے وسط میں اس وقت کی حکومت نے فوج کے کمانڈر انچیف کو وردی میں رہتے ہوئے وفاقی کابینہ میں شامل کیا۔ جس کے بعد فوجی حکومتوں اور مارشل لاء کا ایک تانتا بندھ گیا۔ ایسے حالات کی وجوہات کی بحث میں جائے بغیر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جمہوری حکومتوں کی بحالی کے باوجود بھی گزشتہ ایک دہائی کے دوران دو جمہوری حکومتوں کے دورانیہ میں بھی اقتصادی معاشی صورتحال مستحکم نہیں ہو سکیں جسکے نتیجہ میں موجودہ بجٹ کے آغاز پر پاکستان جس پریشان کن اقتصادی اور سیاسی صورتحال سے دوچار ہے وہ سب کے سامنے ہے اور سیمینار کے مقررین نے موجودہ اقتصادی بحران کی بنیادی وجہ کا تجزیہ کرتے ہوئے اتفاق کیا کہ پاکستان کا خوفناک "FISCAL DEFICIT IS THE MOTHER OF ALL ILLS" یعنی ہمارا متواتر اور خطرناک مالی خسارہ تمام اقتصادی اور معاشی خرابیوں کی جڑ ہے۔
رواں سال کے ابتدائی 9 ماہ کا تجزیہ:
کل وصولیاں: 3145 ارب ‘کل اخراجات: 4383 ارب‘ مالی خسارہ: 1238 ارب‘سال کے آخر میں یہ خسارہ 1.7 کھرب سے کم نہ ہو گا۔ جو کہ شرح نمود کا 5 فیصد ہے جبکہ اسکو 3.8 فیصد تک رہنا تھا۔
اس میں شامل کریں: سرکلر قرضہ جات 400 ارب‘ روکے ہوئے ریفنڈ 300 ارب’ پبلک سیکٹر قرضہ جات 175 ارب‘ کل خسارہ 2575 ارب‘
نتائج 2017-18 کے دوران: 1۔ مزید ٹیکسوں کا نفاذ جس سے معاشی ترقی میں رکاوٹ ہو گی اور محدود آمدن والے لوگوں اور غرباء پر برا اثر پڑیگا۔2۔ مزید قرضہ جات پر انحصار جس کے نتیجے میں مالی خسارے میں بے پناہ اضافہ ہو گا جب ان کی ادائیگی ہو گی۔
موجودہ ٹیکسوں کا نظام غیر منصفانہ اور معاشی تنزلی کا باعث ہے۔ اس فرسودہ نظام کے تحت شرح ٹیکس زیادہ، محصولات کم، وقت کا ضیاع اور تکمیلات میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بلواسطہ ٹیکسوں میں اضافے کا مطلب امیر کی آمدن کا چھوٹا حصہ اور غریب کی آمدن کا بیشتر حصہ ٹیکسوں کی نذر ہو جاتا ہے۔
اصل صورتحال: ٭ 2016-17 کا محصولاتی ہجم 3.6 کھرب ہے لیکن یہ موجودہ حالات میں نا ممکن نظر آرہاہے اور خدشہ ہے کہ تقریباً 400 ارب کی کمی رہ جائیگی۔ ٭ وزیر خزانہ اس کو نمٹنے کیلئے یقینی طور پر پیٹرولیم مصنوعات پر عائد شدہ ٹیکسوں میں اضافہ کرینگے اور وہ بھی پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیئے بغیر۔٭ اس طرح کے اقدام کاروبار کو بری طرح متاثر کرتے ہیں اور معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ کا سبب بنتے ہیں۔
محصولات کا بنیادی تخمینہ: Economic Survey 2015-16 کے مطابق 2015 تک ہمارے ملک کی آبادی 19.54 کروڑ تھی جس میں 7.793 کروڑ شہروں میں اور 11.75 کروڑ دیہی علاقوں میں رہائش پزیر ہیں ۔ 15 سال سے کم عمر بچوں کی شرح 35.4 فیصد جبکہ 65 برس سے اوپر افراد کی شرح 4.2 فیصد تھی۔ تقریباً 3 کروڑ افراد غربت کی سطح سے نیچے ہیں۔ یعنی جن کی آمدن روزانہ 2 ڈالر ہے۔ہماری مزدور آبادی جس کا شمار دنیا میں دسویں نمبر پر ہوتا ہے وہ تقریباً 6.1 کروڑ پر مشتمل ہے۔ جن میں 5.74 کروڑ کو روزگار میسر ہے۔ دیہی آبادی کا 42.3 فیصد حصہ کی آمدن ٹیکس کے قابل نہیں جبکہ زرعی آمدن پر انحصار کرنے والوں پر Income Tax Ordinance, 2001 کے تحت ٹیکس نہیں لگتا۔ نتیجاً اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ 1 کروڑ تک افراد ایسے ہیں جن پر انکم ٹیکس لاگو ہو سکتا ہے لیکن حکومت پس انداز ٹیکسوں کے ذریعے 9 کروڑ افراد سے انکے موبائل پر 14% انکم ٹیکس وصول کرتی ہے۔
حکومتی مئوقف - بیان وزیرخزانہ: ـ"ہماری حکومت کا خواب اور عزم ہے کہ قرض کا شرح نمود سے موازنہ Fiscal Responsibility and Debt Limitation Act, 2005 کے مطابق 60 فیصد تک ہی رکھنا نہیں بلکہ اس کو آئندہ 15سالوں میں جسکا اجراہ 2018-19 سے ہونا ہے 50 فیصد تک لانا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مالی خسارہ کو 4 فیصد کی اوپری سطح تک محدود کرنا ہے۔فورم کی رائے میں بڑھتے ہوئے مختلف قرضہ جات پاکستان کے اکنامک لیڈر شپ کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہے۔
پاکستان نیشنل فورم کی متفقہ رائے میں :
فورم کی رائے میں پاکستان کا حالیہ ٹیکس سسٹم عملی سطح پر نظام نہایت پیچیدہ اور مہنگا گورکھ دھندا ہے۔ آخر میں فورم حکومت کے پالیسی سازوں سے نہایت ادب سے گذارش کرتا ہے کہ بجٹ ALLOCATION کرتے وقت مختلف شعبہ جات کو نہایت سنجیدگی سے غور و غوض کے بعد ترجیحات دینے کا فیصلہ کیا جائے۔ یعنی ریاست کے اعلیٰ ترین مفاد میں فوری درمیانی سطح اور طویل المعیاد اہداف حاصل کرنے کیلئے قومی آمدنی کو خرچ کیا جائے یہ حقیقت سب پر روز روشن کی طرح واضح ہے کہ صرف ایک بجٹ سازی سے پاکستان کے اقتصادی مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ دنیا کی تمام مہذب اور ترقی یافتہ اقوام 50 سال آگے کے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے دانشمندانہ بجٹ سازی کے مرحلے BENCH MARK طے کرتی ہیں جو قومی زندگی کے ہر شعبہ پر محیط ہوتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن