اسلام آباد(نمائندہ نوائے وقت)سپریم کورٹ میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین کی آف شور کمپنی اور بیرون ملک سے فنڈز کی وصولی کی خلاف کیس کی سماعت کر تے ہوئے الیکشن کمیشن سے تحریک انصاف کے فنڈنگ مقدمات کا مکمل ریکارڈ طلب کرلیا ہےجبکہ عمران خان کے وکیل نعیم بخاری سے آف شور کمپنی اور بنی گا لہ کی اراضی با رئے 14 سوالات کے جوابات طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 30 مئی تک ملتوی کردی گئی ہے،دوران سماعت چیف جسٹس میا ں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ سچائی کو ڈھونڈنے کے لیے کوئی ریکارڈ منگوانا پڑا،کوئی انکوائری کرانا پڑی وہ بھی کرائینگے ،عدالت سچ کی تہہ تک پہنچے گی ،بخاری صاحب اپ ٹیکس ریٹرن بھی خود ہی لے آئیں ہمارے نظام میں سچائی کی بہت اہمیت ہے ،انہو ں نے عمران خان کے وکیل سے کہا کہ آ پ کے مطابق عمران خان نے بنی گالہ زمین خریدنے کے لیے جمائمہ سے رقم معاہدے کے تحت قرض لی، تاہم اس حوالے سے پیش کیے جانے والے معاہدے اور جائیداد کی خریداری کے لیے ادا کی جانے والی رقم میں تضاد دکھائی دیتا ہے جبکہ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ لندن سے رقم پاکستان آنے اور یہاں زمین کی ادائیگیوں کی تاریخوں میں تضاد پاےا جاتا ہے۔ چیف جسٹس میا ں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی ،عدالت کی جانب سے عمران خان کے وکیل سے جن 14سوالات کا جواب ما نگا ہے ان میں استفسار کیا گیا آیا کہ بنی گالہ اراضی پہلے لی گئی ، لندن سے رقم بعد میں آئی ، زمین کی ادائیگی پہلے کیسے ہوئی ؟یہ کیسے ثابت کیسے ہوگا کہ راشد کے اکاونٹ میں پیسے کب اور کہاں سے آئے ؟اور راشد خان نے جائیداد کے لئے خود سے رقم نہیں دی تو ادائیگی کے لئے پیسہ کہاں سے آیا ؟راشد خان کے اکاونٹ میں آنے والی رقم میں دو جگہ جمائمہ کا نام ہے ، باقی رقم کس نے بھیجی ؟طلاق کے بعد 95 کنال بنی گالہ اراضی کا جمائمہ کے نام انتقال کیسے ہوا ، کاغذات میں زوجہ عمران خان لکھا گیا ایسا کیو ں ہوا ؟چیک سرٹیفیکیٹ کے مطابق جمائمہ کو قرض کی واپسی نیازی سروسز کمپنی نے کی تو یہ کمپنی بے معنی کیسے ہوئی ؟جمائمہ نے لندن سے پہلی رقم جولائی 2002 میں بھیجی ، اس وقت تک 135 کنال زمین خریدی جا چکی تھی ؟ جمائمہ نے جو اضافی رقم لندن سے بھیجی اس کی ادائیگی راشد خان نے عمران خان کو کیسے کی ؟جمائمہ کی طرف سے بھیجی رقم میں مطابقت نہ ہوئی تو اسے عدالت کیا سمجھے ؟آف شور کمپنی کیسے اور کیوں بنائی جاتی ہے ؟ پاونڈ مالیت کی کمپنی ایک لاکھ 17 ہزار پاونڈز مالیت کا اثاثہ کیسے رکھتی تھی؟کیا پاکستانی قوانین کے مطابق نیازی سروسز ظاہر کرنا ضروری تھی ؟ 2002 میں بیرون ملک اثاثے ظاہر کرنا ضروری تھے یا نہیں ، اگر تھے تو کاغذات نامزدگی میں غیر ملکی اثاثے کیوں ظاہر نہ کئے گئے ؟لندن فلیٹ اپریل 2003 میں فروخت ہوا ، اس کا کرایہ 2004 تک کیسے وصول کیا گیا ؟جب نعیم بخاری سے ان سوالات کا جواب ما نگا گیا تو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ان کو ہدا یت کی کہ یقین ہے کہ آپ ہمارے سوالات سمجھ گئے ہوں گے اس لیے منگل تک ان کا جواب دے دیں ۔عدالت کے رو برو عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے لندن فلیٹ غیر ملکی آمدن سے خرید،،2002 سے پہلے عمران خان کوئی عوامی عہدہ نہیں رکھتے تھے اس لیے ان کے خلاف الزامات کا کوئی جواز نہیں ،عمران خان نے لندن میں جو آف شور کمپنی بنا ئی اس کا لندن فلیٹ کے سوا کوئی اثاثہ نہیں تھا،جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا یہ کیسے پتہ چلے گا کہ آف شور کمپنی کا فلیٹ کے سوا کوئی اثاثہ نہیں تھا،کیا کمپنی کا کوئی آڈٹ کرایا گیا،ریکارڈ سے ثابت کر یں کہ کمپنی کا دوسرا کوئی اثاثہ نہیں تھا۔نعیم بخار ی نے کہا کہ نان ریزیڈنٹ کا تعین انکم ٹیکس آفیسر متعلقہ شخص کے پاسپورٹ ریکارڈ سے کرتا ہے،عمران خان نے سات مئی 2003 میں56245اہلیہ کو دیئے جو کہ نو لاکھ ڈالر بنتے تھے ، لندن فلیٹ آسٹریلیا کی کمائی سے لیا اس لئے پاکستان میں ظاہر نہیں کیے، نیازی سروسز کی مکمل مالیت نو پاﺅنڈ تھی، عمران خان کا فلیٹ کے علاوہ کوئی اثاثہ نہیں تھا، جسٹس عمر عطا بندیال کہا کہ کیا آف شور کمپنی کا کوئی آڈٹ ہوتا ہے، کیسے معلوم ہوگا آف شور کمپنی کس کی ملکیت میں ہے، تو نعیم بخاری نے کہا کہ ان کے مو کل نے آف شور کمپنی بنا ئی اور اس کا ایک مقصد وہا ں پر ملکیت چھپانا اور ٹیکس بچانا ہے لیکن بعد ازاں 2002کے نامزدگی فارم میں لندن فلیٹ ظاہر کیا،اس سے قبل عمران خان کے پاس کوئی عوامی عہدہ نہیں تھا اور جب ان کے پاس عوامی عہدہ آیا تو انہو ں نے اس وقت اس کو ظاہر بھی کیا ، اکرم شیخ نے کہاکہ عمران خان نے 1997میں بھی الیکشن لڑا، عمران خان کے 1997کے انتخابات میں جمع کرائے گے کاغذات نامزدگی بھی ریکارڈ پر لائے جائیں چیف جسٹس نے کہاکہ 97کے انتخابات غالبا عمران خان ہار گئے تھے، آپ نے یہ مو قف اپنایا ہے کہ عمران خان نے آف شور کمپنی نیازی سروسز ظاہر نہیں کی گئی اگر اس با رئے ضرورت محسوس ہوئی تو 97کے کاغذات نامزدگی طلب کر لیں گے تاہم پتہ نہیں اتنا پرانا ریکارڈ موجود ہو گا بھی یا نہیں، جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ نیازی سروسز میں کتنے شیئر ہولڈرز ہیں تو نعیم بخاری نے بتایا کہ تین شیئر ہولڈرز تھے تینوں نے تین پانڈز دیئے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اکرم شیخ کاکیس ہے کہ عمران خان نے نیازی سروسز ظاہر نہیں کی اس لیے وہ صادق اور امین نہیں رہے ، اور اس بنیاد پر عمران خان کی نااہلی کی استدعا کی گئی ہے، نعیم بخاری نے کہاکہ عمران خان نیازی سروسز کے مالک تھے،جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ ممکن ہے نیازی سروسز کے کوئی دوسرے اثاثہ جات ہوں جو چھپائے جا رہے ہوں، اسی لیے پوچھا کوئی دستاویزات ہیں جو آف شور کمپنیوں کے اثاثوں کی تفصیل بتائے، نعیم بخاری نے کہاکہ اثاثے کم بتائے یا چھپائے تعین ایف بی آر نے کرنا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ صادق اور امین ہونے کافیصلہ ایف بی آر نے نہیں کرنا، جسٹس عمر عطابندیال نے استفسار کیاکہ اگر نیازی سروسز شیل کمپنی تھی تو اسکا ریکارڈ آپ ہمیں کب دیں گے، نعیم بخاری نے کہاکہ مئی 2003میں لندن فلیٹ فروخت کردیا،جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ ہمیں کوئی جلدی نہیں اپ بنی گالہ اراضی کے تمام ریکارڈ کا تاریخ کے حساب سے بتایں ، ایڈوکیٹ نعیم بخاری نے کہا کہ فلیٹ کی فروخت میں تاخیر ہو ئی تو بنی گالہ راضی کی رقم ادا کرنے کے لیے عمران خان نے جمائمہ سے رقم قرض لیا،جو فلیٹ فروخت کرکے ادا کیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیاجائیداد تحفہ دینے کی کوئی دستاویزات ہیں جس پر نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ تومیاں بیوی کاہے ۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ کاغذات ہمیں دیکھنے تو چاہیے ۔نعیم بخاری نے کہاکہ نیازی سروسز کے اثاثے نہیں چھپائے گئے، بنی گالہ اراضی معاملے پر عدالت کو مطمئن کرنا ہے،ریونیو ریکارڈ بھی وضاحت دیتا ہے، اکرم شیخ نے کہاکہ پیش کیے گئے شیئرز دس سال پرانے ہیںجس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ پھر آپ کا کیس سول کورٹ بھجوا دیتے ہیں، ،اکرم شیخ نے کہاکہ باہر سے پیسے آنے کی مکمل تفصیل نہیں دی گئی، جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ پیسہ باہر سے لانا بہتر ہے یا ملک باہر لے جانا بہتر ہے، عدالت نے عمران خان کے وکیل سے چودہ سوالات کے جواب طلب کر تے ہوئے مزید سماعت منگل30مئی تک ملتوی کر دی گئی ہے۔