خواب دیکھنے اور خواب دکھانے پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی۔ دنیا کی تاریخ میں لیڈر خواب دیکھتے رہے ہیں البتہ بہت کم خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے۔ علامہ اقبال نے 1930ءمیں پاکستان کا خواب دیکھا جو اس وقت ناممکن نظر آتا تھا مگر قائداعظم نے امانت، دیانت، صداقت، بصیرت، عزم اور محنت سے 1947ءمیں یہ خواب پورا کردکھایا جبکہ انسانی تاریخ کے صدیوں خواب پورے نہ ہونے پائے۔ بقول شاعر:۔
یہ الگ بات کہہ شرمندہ¿ تعمیر نہ ہوں
ورنہ ہر ذہن میں کچھ تاج محل ہوتے ہیں
بھٹو شہید نے ایٹمی سوشلسٹ پاکستان کا خواب دیکھا۔ انہوں نے 1970ءکے انتخابات سے پہلے قوم کو انقلابی، نظریاتی منشور ”روٹی کپڑا اور مکان“ دیا اور اقتدار میں آنے کے بعد قابل ذکر حد تک پارٹی منشور پر عمل کردکھایا مگر اقتدار پرست جرنیل ضیاءالحق اور اس کے اتحادی ججوں، مذہبی رہنماﺅں، تاجروں اور صنعتکاروں نے امریکی آشیرباد سے بھٹو شہید کو سیاسی منظر سے ہٹا دیا۔ بقول فیض:۔
مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
عمران خان بڑے خواب دیکھنے والا لیڈر ہے اور اپنے کارکنوں کو بھی بڑے خواب دیکھنے کی تلقین کرتا ہے۔ اس نے ورلڈ کپ کا خواب دیکھا جو پورا ہوا۔ اس نے شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی کا خواب دیکھا جسے پورا کردکھایا۔ تحریک انصاف نے جمہوری سیاسی انتخابی روایت کے مطابق پہلے سو دن کا ایجنڈا دیا ہے جس میں دلفریب اور دلکش دعوے کئے گئے ہیں۔ فاٹا کا خیبر پختونخواہ میں انضمام، جنوبی پنجاب صوبے کا قیام، کراچی کیلئے خصوصی پیکج، ناراض بلوچوں سے مفاہمت، غربت کا خاتمہ، وفاق کی مضبوطی، گڈ گورننس کی یقین دہانی، معاشی استحکام، زرعی انقلاب، قومی سلامتی کا استحکام، سوشل سیکٹر پر خصوصی توجہ، شفاف یکساں احتساب، پولیس اور بیوروکریسی میں سیاسی مداخلت کا خاتمہ، میرٹ کی حکمرانی، فوری اور سستے انصاف کی فراہمی، ٹیکس نیٹ میں اضافہ، دوسرے ملکوں میں مقیم پاکستانیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی ترغیب دینا، صاف پانی کی فراہمی، تعلیم اور صحت پر خصوصی توجہ، ایک کروڑ روزگار کی فراہمی، پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر اور دس ارب درختوں کا ٹارگٹ ایسے دعوے ہیں جو نئے پاکستان کی تشکیل اور استحکام کیلئے لازمی ہیں اور قومی ضرورت ہیں۔ عمران خان کا دعویٰ ہے کہ ان کو خیبرپختونخوا میں گورننس کے مسائل اور مشکلات کا تجربہ ہوا ہے۔ قوم ان کی امانت اور دیانت کی وجہ سے ان پر اعتماد کرتی ہے۔ شوکت خانم ہسپتال اس کا بڑا ثبوت ہے۔ وہ ریونیو دگنا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے ان کو سرمایہ کاری کی یقین دہانی کرارکھی ہے۔ اگر عوام نے ان کو وزیراعظم منتخب کیا تو وہ عوام کی طاقت اور اعتماد سے اپنے انتخابی ایجنڈے پر عمل کرکے نئے پاکستان کا خواب پورا کر دکھائیں گے۔
تحریک انصاف کے سیاسی حریف انکے سو دن کے ایجنڈے کو انتخابی شعبدے بازی قرار دے رہے ہیں اور دعویٰ کر رہے ہیں کہ عمران خان کا انتخابی ایجنڈا پاکستان کی معاشی صورتحال سے مطابقت نہیں رکھتا۔ عمران خان اگر ایک صوبے کو ماڈل نہیں بنا سکے تو وہ نئے پاکستان کا دعویٰ کیسے پورا کر سکیں گے۔ غیر جانبدار تجزیہ نگار بھی سودن کے ایجنڈے کو ناقابل عمل قراردے رہے ہیں جبکہ تحریک انصاف کے لیڈروں نے قوم کے سامنے پاکستان پلان کی تفصیل رکھنے کا دعویٰ کیا ہے۔ انتخابی تاریخ میں چوں کہ پاکستان کے عوام کو بلند بانگ دعوے کرکے فریب دیا جاتا رہا ہے اس لیے عمران خان کیلئے عوام کو اپنے سہانے سیاسی خواب کے بارے میں اعتماد میں لینا آسان کام نہیں ہوگا۔ سودن کا ایجنڈا اس قدر پرکشش ہے کہ اس پر یقین نہیں آتا۔ بقول غالب
تیرے وعدے پر جیئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
پاکستان کے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف قانونی جنگ ہار چکے ہیں وہ اربوں روپے کے لندن فلیٹس کے بارے میں منی ٹریل دینے میں ناکام رہے ہیں وہ عدلیہ اور عوام کو اپنے غیر ملکی اثاثوں کے بارے میں مطمئن نہیں کرسکے اور اب ”سیاسی شہید“ بننے کی کوشش کررہے ہیں۔ انہوں نے احتساب عدالت کے دفاعی قانون اور دفاعی حق کا سہارا لیتے ہوئے اپنے ہاتھ کا آخری پتا پھینک دیا ہے۔ پانامہ کہانی آخر کار اپنے انجام کو پہنچ گئی ہے یہ ایسی پراسرار اور دلچسپ کہانی ہے کہ اس پر فلم بنائی جائےگی۔ میاں نوازشریف اور انکے خاندان نے پارلیمنٹ سے سپریم کورٹ تک اور جے آئی ٹی سے احتساب عدالت تک کئی مو¿قف بدلے اور اب پانامہ کہانی کو نیا موڑ دیتے ہوئے سارا ملبہ جنرل پرویز مشرف پر ڈال دیا ہے اور کہا ہے کہ چوں کہ انہوں نے جنرل پرویز مشرف کیخلاف بغاوت کا مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا تھا اس لئے ان کیخلاف مقدمہ قائم کرکے انہیں وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹا دیا گیا۔ عام آدمی بھی جانتا ہے کہ پانامہ عالمی ایشو ہے جس نے دنیا کے صدور اور وزرائے اعظموں کو متاثر کیا جس کا پرجوش خیرمقدم صدر پاکستان ممنون حسین نے بھی کیا۔ پانامہ کیس اس وقت عدالت میں چلا جب جنرل مشرف ملک سے باہر جا چکے تھے اور میاں نواز شریف خود پانامہ کیس عدلیہ میں لے کرگئے تھے۔ میاں صاحب کے بقول عمران خان کے دھرنے کے پیچھے خفیہ ایجنسیوں کا ہاتھ تھا۔ سینئر تجزیہ نگاروں کے مطابق میاں صاحب نے آدھا سچ بولا ہے جبکہ پورا سچ تاریخ کے ریکارڈ میں موجود ہے جس کا آغاز جنرل ضیاءالحق سے ہوتا ہے۔ میاں صاحب شاید عملی سیاست سے ریٹائر ہونے کے بعد پورا سچ لکھ ڈالیں۔
سیاست میں ٹائمنگ بڑی اہم ہوتی ہے اگر میاں صاحب جنرل مشرف کو پاکستان سے باہر جانے کی اجازت نہ دیتے اور دباﺅ میں آنے کی بجائے اس وقت قوم کو اعتماد میں لیتے تو سیاسی ہیروبن جاتے اور عمران خان کیلئے سیاست میں سپیس ہی پیدا نہ ہوتی۔ اب وہ اپنے خاندان، مسلم لیگ (ن) کیلئے مشکلات پیدا کرنے اور میاں شہباز شریف کا وزیراعظم بننے کا موقع ضائع کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کرسکتے۔ مسلم لیگ (ن) کے الیکٹ ایبلز میاں صاحب کو چھوڑتے جارہے ہیں اور وہ نوشتہ دیوار پڑھنے سے قاصر نظر آرہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ فوج کے جرنیل سیاست میں افسوسناک مداخلت کرتے رہے ہیں جس کا سب سے بڑا ثبوت اصغر خان کیس ہے۔ فوجی طاقت اس وقت تک ریاست پر بالادست رہے گی جب تک سیاسی طاقت ترکی کے اردگان کی طرح عوامی خدمت اور اچھی حکمرانی کرکے مضبوط اور مستحکم نہیں ہوتی۔ کاش سیاستدان اہلیت، نیت، خدمت اور عزم کا مظاہرہ کرتے تو آج جمہوریت مستحکم ہوچکی ہوتی اور سول ملٹری عدم توازن ختم ہو چکا ہوتا۔ پاک فوج کی موجودہ قیادت اور نوجوان پاکستان کے دفاع اور سلامتی کا فرض پورا کرتے ہوئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کررہے ہیں اور آئین کی حکمرانی اور یکساں شفاف احتساب پر یکسو ہیں۔ پاکستان کے عوام اپنی بہادر افواج کے ساتھ کھڑے ہیں کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ کرپٹ سیاستدان پاکستان سے باہر بھاگ جاتے ہیں اور پاک فوج ہر آزمائش میں عوام کے ساتھ کھڑی رہتی ہے۔ اگر خدانخواستہ پاکستان کے دشمنوں کی سازش کے مطابق پاک فوج کمزور ہوگئی تو پاکستان یمن، عراق، شام، لیبیا اور افغانستان بن جائیگا۔ پاک فوج اور عوام مل کر ہی دشمنوں کی سازش کو ناکام بنا سکتے ہیں۔ سیاستدانوں کے ماضی اور حال کے بیانات میں تضادات دیکھ اور سن کر یہ شعر یاد آتا ہے۔
اس قدر روپ ہیں یاروں کے کہ خوف آتا ہے
سرِ مے خانہ جدا اور سرِ دربار جدا