پہلی اُم المومنینؓ

امیر حمزہ
حضرت خدیجہؓ جنہیں قیامت تک کے لئے حضور کی امت کی ماں ہونے کا مقام حاصل ہے۔ مکہ ہی نہیں پورے عرب کا جو سب سے معزز ترین خاندان تھا اس قریش خاندان سے حضرت خدیجہؓ کا تعلق ہے۔ حضرت خدیجہؓ تاجر اور مکہ کی مالدار ترین خاتون تھیں جن کی تجارت سرزمین عرب پرپھیلی ہوئی تھی۔ان کا مال مکہ سے شام جاتا تھا اور شام سے مکہ آتاتھا۔ اس تجارت کے لئے انہوں نے ایک نگران اعلیٰ اور اس کے ماتحت ملازم رکھے ہوتے تھے ، ان میں ایک غلام میسرہ بھی تھا۔
حسب و نسب ، مال و دولت ، حسن و جمال اور بلندی کردار کو دیکھتے ہوئے مکہ کے کئی سرداروں نے حضرت خدیجہؓ کو شادی کی پیشکش کر رکھی تھی لیکن انہوں نے ہر پیشکش کو مسترد کر دیا ۔نبی کریم صادق امین تو مشہور تھے ہی، اس کے ساتھ انتہائی دیانت دار ، نرم خود اور بلندو پاکیزہ کردار بھی مشہور تھے۔ یہ شہرت جب حضرت خدیجہ ؓنے سنی تو نبی کریم کا انتخاب کرنے کا سوچا، چنانچہ انہوں نے آپ سے اس خواہش کے اظہار کیلئے رابطہ کیا اور درخواست کی کہ وہ ان کا تجارتی مال لے کر شام جائیں ۔ انہیں معاوضہ عام معاوضے سے زیادہ دیا جائے گا۔ اللہ کے رسول نے اس پیشکش کا تذکرہ حضرت ابو طالب سے کیا انہوں نے کلی اتفاق کرتے ہوئے آمادگی کا اظہار کیا۔ بلکہ کہا کہ یہ رزق ہے جس کا سبب اللہ نے آپ کے لئے بنایا ہے۔
حضرت نبی کریم مال تجارت لے کر روانہ ہو گئے۔ حضرت خدیجہؓ کا غلام میسرہ بھی ہمراہ تھا ۔ حضرت نبی کریم کو اس مال سے دو گناہ نفع حاصل ہوا۔ واپسی پر جناب میسرہ نے نبی کریم کے فضائل جب حضرت خدیجہؓ کے سامنے رکھے کہ وہ کس طرح سفر میں دوسروں کا خیال رکھنے والے ہیں ۔ حسن اخلاق کا پیکرہیں، صدق و امانت میں بے مثال ہیں تو ان خوبیوں اور بزنس کے نفع بخش نتیجے کو دیکھ کر حضرت خدیجہؓ گرویدہ ہوگئیں اور حضرت محمد کی خدمت میں نکاح کا پیغام بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت نبی کریم کی عمر مبارک 25 سال تھی جبکہ حضرت خدیجہؓ 40سال کی تھیں۔نبی کریم نے اس پیغام کا ذکر اپنے چچا جناب ابو طالب اور حضرت حمزہؓ سے کیا۔ ان دونوں نے حضرت خدیجہؓ کے چچا عمر و بن اسد سے ملاقات کی۔ حضرت خدیجہؓ کے والد جنگ فجار میں قتل ہو چکے تھے۔ چنانچہ بیس اونٹنیاں بطور حق مہر طے کیا گیا اور جناب ابو طالب نے قریش کی مجلس میں کھڑے ہو کر نکاح کردیا۔ یوں حضرت محمد کریم اور حضرت خدیجہؓ شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔
ایک عورت جو سب سے پہلے بیٹی بنتی ہے ،جب بیوی اور بہو بھی بن جاتی ہے تو کسی کی خالہ بھی ہوتی ہے، پھوپھی بھی ہوتی ہے ، چچی کہلاتی ہے، ساس بھی بنتی ہے ، دادی نانی بھی بنتی ہے مگر ان سب مقامات میں جو ماں کہلانے کا مقام ہے وہ سب سے بلند ہے۔ سب سے اونچا ہے ماں وہ مقام ہے کہ اس مقام کا کوئی دوسرا مقام مقابلہ نہیں کر سکتا۔ یہ وہ رشتہ ہے کہ باقی تمام رشتے اس کے سامنے ہیچ ہیں چنانچہ حضور کے امتی اللہ تعالیٰ کے حبیب اور خلیل حضرت محمد کریم کی ازواج مطہرات کو کیا کہہ کر مخاطب کریں۔ اللہ نے امتیوں کی صوابدیدپر یہ بات نہیں چھوڑی۔ اللہ نے اس کا فیصلہ خود کیا اور عورت کے احترام جو سب سے بلند ترین رشتہ ہے اس کا انتخاب فرمایا چنانچہ سورة احزاب میں واضح کر دیا گیا کہ ” میرے نبی کی بیویاں ان (امتیوں ) کی مائیں ہیں “۔یوں آپ کوتا قیامت امت محمد کی پہلی ماں کے لقب سے پکارا جاتا رہے گا ۔ آپ کے وصال کے بعد حضور کی جانب سے یہ سال عام الحزن یعنی غم کا سال قرار پایا۔ حضور مدینہ تشریف لائے تو تب بھی اکثر حضرت خدیجہؓ کا ذکر کرتے اور ان کی سہیلیوں کا احترام کرتے۔ حضرت عائشہؓ نے ایک بار کہہ ہی دیا کہ آپ حضرت خدیجہ ؓ کی رحلت کے بعد بھی ہماری موجودگی میں اکثر اُن کا ذکر کرتے ہیں جو بزرگ خاتون تھیں۔ حضور نے جواب دیا، عائشہؓ تمہیں کیا پتہ کہ خدیجہؓ سے مجھے کس قدر سکون ملا۔ جب اسلام کی وجہ سے لوگ تکذیب کر رہے تھے تو حضرت خدیجہؓ تصدیق کر رہی تھیں۔ مجھے حوصلہ دے رہی تھیں۔ ان کا مال میرے اور مسلمانوں کے کام آیا۔ میری اولاد انہی سے ہے۔ حضور نے یہ بھی فرمایا کہ دنیا میں چار عورتیں ہی افضل ترین اور باکمال ہوئی ہیں۔ ان میں فرعون کی بیوی آسیہ بنت مزاحم، حضرت عیسی کی والدہ حضرت مریم، حضرت خدیجہؓ اور حضرت فاطمہ شامل ہیں۔ یادرہے ! چار باکمال عورتوں میں سے دو ماں بیٹی ہیں اور یہ اعزاز بھی حضرت خدیجہؓ کا ہے۔

ای پیپر دی نیشن