رویوں میں اصلاح کی ضرورت

ملکی صنعت و تجارت کو قومیانے اور سرمایہ کاری کو گہرے زخم لگانے کے باوجود ایسا کبھی نہیں ہوا کہ بزنس کمیونٹی کا دل چھوٹا ہو۔ صنعت کاری کا عمل رکنے دیا ہو‘ تجارتی سرگرمیوں میں ازخود سردمہری پیدا کی یا ملک و قوم کیلئے خدمت کے جذبوں میں کمی آنے دی ہو۔ کاروباری طبقہ کے اس طرز فکر و عمل کے باوجود کاروباری تاریخ کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ جب کبھی ٹیکس حجم بڑھانے کی سوچ پیدا ہوئی‘ بیوروکریسی نے اپنی سوچ اورفکر میں وسعت اور نئی راہیں تلاش کرنے کی بجائے پہلے سے رجسٹرڈ کاروباری اداروں کی پکڑ دھکڑ اور خوف کے ذریعے انہیں مزید نچوڑنے پر انحصار بڑھایا حالانکہ ٹیکس کا حجم بڑھانے کیلئے اداروں کی کارکردگی بڑھانا ہوگی۔ اداروں کی کارکردگی خوف کے ماحول میں نہیں بلکہ انہیں سازگار ماحول دینے‘ ترغیبات اور سہولیات مہیا کرنے کے علاوہ ٹیکس وصولی میں خوشدلانہ رویہ اختیار کرنے سے ہوگا۔
کاروباری اداروں پر ہمہ وقت خوف کے بادل طاری رکھنے سے انکی کارکردگی میں بہتری اور اضافہ نہیں ہو سکتا بلکہ کاروبار سکڑنے اور نقصانات کا اندیشہ رہتا ہے۔ ملک و قوم کیلئے کاروباری طبقہ کی خدمات کو دیکھ لیا جائے تو ان کیخلاف سخت اقدامات کی بجائے افہام وتفہیم سے کاروبار تنازعات سلجھانے کی راہ ضرور دکھائی دینے لگے گی۔ دنیا جانتی اور مانتی ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں کی بے مثال و لازوال جانی و مالی قربانیوں کے نتیجے میں پاکستان وجود پذیر ہوا۔ نئی حکومت کے پاس ملک کو چلانے کیلئے وسائل کی شدید کمی تھی‘ سالار کاروان قائداعظم محمد علی جناح کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے کاروباری شخصیات نے مالی وسائل قائداعظم کے قدموں میں نچھاور کر دیئے۔ ایثار و قربانی کا سلسلہ اس پر نہیں رکا بلکہ ستر برس کی تاریخ گواہ ہے کہ وطن عزیز پر جب کبھی اسکے ازلی دشمن نے حملہ کیا‘ سیلاب کی تباہ کاریوں یا زلزلہ نے آبادیوں‘ مال مویشیوں اور فصلوں کو نقصانات سے دوچار کیا‘ کاروباری طبقہ نے بساط سے بڑھ کر ملک اور قوم کی مدد کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ ٹیکس حکام ہوں یا دیگر حکومتی ادارے‘ ان سب نے حکومتی واجبات کی وصولی کیلئے کاروباری طبقہ پر انحصار و اعتبار بڑھانے کی بجائے اقتدار و اختیار کی لاٹھی چلانے اور اپنا رعب و دبدبہ دکھانے کی زیادہ کوشش کی ہے۔ اگر کسی وقت ٹیکس یا حکومتی واجبات کی وصولی میں معمولی فرق آنے کی صورت میں کاروباری افراد کو چور ثابت کرکے انہیں بے عزت و بے وقار کیا جائے اور وہ بھی ٹی وی چینل پر لائیو دکھایا جائے گا تو پریشان ہو کر کچھ کاروباری افراد کاروبار سے دستکش ہو جائینگے۔
اس طرح لامحالہ ٹیکس ریونیو میں کمی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوگا‘ کئی برس پہلے اخبار میں دیکھا تھا کہ فیصل آباد کے ایک کاروباری آدمی کو ٹیکس حکام نے اس قدر زیادہ خوف میں مبتلا کیا کہ وہ موت کے منہ میں چلا گیا۔ ٹیکس حکام کے ناروا رویے سے نامعلوم کتنے افراد کاروبار کرنے سے ہی تائب ہو چکے ہونگے۔ ٹیکس وصولی کے بھیانک حادثات کے سامنے آنا اس ادارے کی کارکردگی پر پانی پھیر دیتا ہے۔
یہ بھی درست ہے کہ کاروباری طبقہ بات بات پر احتجاجوں اور ہڑتالوں پر جانا پسند نہیں کرتا۔ اسے شعور ہے کہ احتجاجوں اور ہڑتالوں سے ان کا اپنا نقصان ہوگا۔ ایف بی آر کے چیئرمین کا اعلان خوش آئند ہے۔ انہوں نے اگلے دن فیڈریشن پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے دفتر میں کاروباری افراد سے خطاب میں یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ انکے دفاتر‘ دکانوں اور فیکٹریوں پر چھاپے نہیں مارے جائینگے۔ اس سلسلہ میں جاری کردہ نوٹس واپس لینے کا اعلان بھی انہوں نے کیا ہے۔ چیئرمین صاحب کو مزید یہ اقدام بھی کرنا چاہیے کہ انکی یقین دہانی پر عمل نہ کرنے والے ٹیکس افسران کی گوشمالی اور اصلاح کا بندوبست کیا جائے۔ کاروباری افراد کے پاس سرمائے کا ہونا ایک جرم بنا دیا گیا ہے۔ نشاط گروپ اور اسکے مالک میاں منشاء کاروباری دنیا کا بڑا نام ہے۔ جہاں بھی سرمایہ کاری کرینگے انکی قدر ومنزلت ہوگی۔ اسی طرح پراپرٹی کی فیلڈ میں بحریہ اور ملک ریاض اہم ترین نام ہیں۔ قانون اور اپنی سوچ کے مطابق حکومت کو ریونیو اور عوام کو روزگار کے مواقع دینے میں کنجوسی نہیں دکھا رہے۔ ٹیکس حکام بالخصوص ایف بی آر کے چیئرمین کو چاہیے کہ اپنے ادارے کا تشخص ملک اور کاروبار دوست بنائیں۔ صاحب سروس حضرات کو کاروبار سے بھگائیں نہیں‘ بلکہ انہیں کاروبار زیادہ سے زیادہ پھیلانے پر آمادہ کریں۔ بڑے کاروباری اداروں کے ساتھ عزت افزائی کا سلوک دیکھ کر بیرونی سرمایہ کار پاکستان کا رخ کرینگے۔

ای پیپر دی نیشن