مودی کی دوسری مدت: تاریکی کا سفر

May 26, 2019

وقار مسعود خاں

بھارتی انتخابات میں مودی کی غیر متوقع اور غیر معمولی اکثریت سے کامیابی نے معتدل حلقوں میں خوف و ہراس پھیلا دیا ہے۔ بھارت جس ہیجان میں مبتلا ہوگیا ہے اس سے ریاست کے تاسیسی مقاصد اور تصورات کو شدید خطرات لا حق ہوگئے ہیں۔ معتدل حلقوں کے صاف ذہن کے حامل دانشور اپنی تحریروں سے بھارتی قوم کو ان خطرات سے خبردار کررہے ہیں جو ہندو قوم پرستی کے بے قابو عفریت نے پیدا کردیے ہیں۔ کپیل کامیریڈی ایک نامور بھارتی صحافی اور دانشور ہیں جن کی تحریریں دنیا کے تمام بڑے اخبارات اور جرائد میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ ان کی کتاب "بدخواہ جمہوریہ : نئے بھارت کی ایک مختصر تاریخ" اس سال شائع ہورہی ہے۔ اپنے ایک تازہ مضمون میں ،جو گارجین میں شائع ہوا ہے، کامیریڈی نے اپنے لوگوں‘ ہم وطنوں کو آمدہ خطرات سے آگاہ کردیا ہے۔ اس مضمون کا ترجمہ ہم نذر قارئیں کررہے ہیں۔
"دوہزار انیس میں دنیا کا سب سے بڑا چناؤ جمہوری پوجا پاٹ سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ وہ موجودہ بھارتی عوام کی اکثریت کی زندگی میں نتائج کے اعتبار سے سب سے بڑا ووٹ تھا۔ انیس سو اکیانوے سے لیکر آج تک، بھارت مودی کے ماتحت ایک مکمل تبدیلی سے گزر چکا ہے۔ موجودہ چناؤ درحقیقت ایک ریفرنڈم تھا اس بات کو طے کرنے کیلئے کہ آیا بھارت اپنے تاسیسی تصورات اور آئیڈیل کی طرف واپس لوٹے گا یا پھر مودی کی کامیابی کی شکل میں ایک جست لگا کر مذہبی منافرت اور فرقہ پرستی کے اْس مقام پر آ کھڑا ہوگا جہاں سے اس کی واپسی تقریباً ناممکن ہوگی۔
مودی حکومت نے اْن بڑے وعدوں میں سے کوئی ایک بھی پورا نہیں کیا جن کی بنیاد پر اس کی "ہندو پہلے" بھارتیہ جنتا پارٹی نے دوہزار چودہ کا چناؤ سیلاب کی صورت جیتا تھا۔ جہاں اس پارٹی کو تیس سال میں پہلی مرتبہ لوک سبھا میں واضح اکثریت حاصل ہوئی تھی۔ مودی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ دو کڑوڑ نوکریاں پیدا کریگا، جبکہ صورتحال یہ ہے کہ بیروزگاری کی شرح بیس سال کی سب سے زیادہ ہے۔ اس کی مہم نے نوجوانوں کو"اسمارٹ شہروں" کے تصور سے مسحور کردیا تھا، جن میں دکن کی پہاڑیوں اور شمالی ہند کے میدانوں مٰیں واقع شہروں پر سنگاپور اور سوئل کی تصاویر آویزاں کردی گئی تھیں اور وہاں صاف اور سبز مناظر تھے اور آسمان سے باتیں کرتی عمارتیں ، اور سپر اسپیڈ ٹرینیں چل رہیں تھیں۔حقیقت میں ایسی کوئی بات سامنے نہیں آئی۔ اس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ گنگا کو آلودگی سے پاک کریگا۔ لیکن یہ آج بھی گندگی سے بھرپور نالا ہے جس میں لاتعداد مقدار میں گندا پانی اور صنعتی فضلہ بہتا ہے۔
اس سے بھی بڑا نقصان اس نے جمہوری اداروں کو پہنچایا ہے جن کا مقصد یہ ٹھہرادیا گیا ہے کہ وہ مودی کے اس منصوبے میں تعاون کریں جس میں بھارت کی تنظیم نو بحیثیت ایک ہندو قوم کی جارہی ہے۔ الیکشن کمیشن جس نے انیس سو باون سے انتہائی نامساعد حالات میں انتخابات کا انعقاد کرایا ہے، اور جس کی ساکھ غیر جانبداری اور شدید آزاد ی و خود مختاری کی رہی ہے، وہ اس چناؤ میں بی جے پی کے ایک بازو کی حیثیت سے کام کرتا رہا ہے۔ اس نے نہایت بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مودی کے مذہبی نعرے بازیوں کا تکلفاً بھی کوئی نوٹس نہیں لیا۔ فوج کو سیاسی بنادیا گیا اور عدلیہ تو ایک ایسے خول میں چلی گئی جہاں اسے اپنی آزادی کھو دینے کا خوف ہے، بالکل ایسے جیسے اس کو انیس سو پچھتر میں سامنا تھا جب اندار گاندھی نے آئین کو معطل کردیا تھا اور اکیس مہینے ایک آمر کی حیثیت سے حکمرانی کی تھی۔
مودی کی وہ افسانوی شخصیت، جس میں اسے ایک ٹیکنوکریٹک مجدّد بنا کر پیش کیا گیا تھا، اور جس تصور کو ایک دانشوروں اور صنعتکاروں کے ایسے گروہ نے تراشا تھا جو مودی کے بدبودار جسم کو خوشبو سے آراستہ کرنا چاہتے تھے، اس پر سے ہندو بالا دستی کا پیکر اور گجرات میں دو ہزار مسلمانوں کا قاتل ہونے کا داغ دھونا چاہتے تھے، شروع ہی میں پاش پاش ہوگئی تھی۔ وہ اس کی نااہلی، بے جا شہرت کی تمنّا، اور اس کی بہیمانہ فطر ت کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے تھے۔ اس کی شقی القلبی کا یہ عالم تھا کہ ایک موقع پر اس نے گجرات کے مہاجرین کے اس کیمپ کو، جو لٹے پٹے مسلمانوں کیلئے بنایا گیا تھا ، "بچے بنانے کا مرکز" قرار دیا تھا۔
اب پانچ سال بعد ہمیں اس "نئے بھارت " کی ایک جھلک نظر آرہی ہے جو اس نے تعمیر کیا ہے۔ لیکن یہ اس کے معمار کی تصویر پیش کررہا ہے: ثقافتی طور پر بنجر، دانائی سے محروم، جذباتی طور پر مجروح۔ بلا مقصد، تلخ، اتراتا، مستقل متاثر اور بے قابو بدخواہی۔ایک ایسی خیالی سرزمین جو جھوٹ اور فراڈ پر بنائی گئی ہے، جہاں مذہبی اقلیتوں پر حملے کرنا ایک ایسی خود ماتمی اکثریت کا طریقہ علاج ہے جو اس بات پر نالاں ہے کہ اس کے وزیر اعظم نے ان کی معاشی حالت کو بہتر نہیں بنایا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی سیکولر جمہوریت میں مودی کی آمد کے بعد سے مسلمان اقلیت کو ہندو غنڈوں نے ان "جرائم" پر دن دھاڑے قتل کردیا کہ انھوں نے گائے کا گوشت کھایا، کسی ہندو لڑکی سے دوستی کی یا کسی کھچا کھچ بھری ٹرین میں کسی ہندو کی آمد پر اس کیلئے سیٹ نہیں چھوڑی۔
مذہبی عدم برداشت بھارت میں ہمیشہ سے مسئلہ رہی ہے۔ اس کو قتل کی بنیاد بنانے کا میدان مودی نے فراہم کیا ہے جس میں دن دونی اور رات چوگنی بڑھوتی ہو رہی ہے۔ دہشت گردی کی اس موسیقی کو ترتیب اور اس کو سنانے کا کام ہندو قوم پرستی کے کارڈ بردار کارکنوں نے انجام دیا ہے۔جن مسلمانوں کو انھوں نے ذبح کیا ہے وہ کسی حادثاتی غیظ و غضب کا نتیجہ نہیں تھے بلکہ وہ ایک منظم منصوبہ بندی اور مقاصد کے حصول کا عمل تھا جس میں ہندو بالادستی کو قائم کرنا تھا۔ مودی کو دیوتا بنانے کا عمل ایک ہندو ماضی کے احیا کی بھونڈی کوشش ہے: ایک غیر منظم ردعمل ان دردناک واقعات کا جو تقسیم ہند کے میراث ہیں جہاں مسلمان قومیت کو قبول کرکیے ملک کو تقسیم کردیا گیا۔ "ہندو ہی کیوں سیکولرازم کا بوجھ اٹھائیں"، ایک بنگالی ووٹر نے احتجاج کرتے ہوئے مجھ سے پوچھا۔بنگلور کے ایک ووٹر نے یہ کہہ کر سیکولرازم کو رد کردیا کہ اگر ہم سیکولرازم سے چمٹے رہے تو مسلمان زیادہ بچے پیدا کرکے ہمیں اقلیت بنادیں گے۔
بھارت کی بدقسمتی یہ ہے کہ ایک ایسے موقع پر جب اسے وجودی خطرات کا سامنا ہے ، اس کے پاس قومی سطح پر بی جے پی کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ کانگریس خود اعتمادی کھو چکی ہے۔ وہ پارٹی جس نے برطانوی سامراج سے بھارت کی تحریک آزادی کی قیادت کی ، اس نے ستّر کی دہائی میں جمہوریت پر اپنا یقین کھو دیا ، اسیّ کی دہائی میں اس نے ہندو قوم پرستوں کے ساتھ شرمناک سمجھوتے کیے اور نوّے کی دہائی میں غیر معمولی کرپشن کا شکار ہوگئی۔ اندرا گاندھی نے آئین کو معطل کرکے بھارتیوں کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ مودی کی خواہش ہے کہ وہ اپنے نظریات کو آئین میں درج کردے تاکہ بھارتی تقسیم ہوجائیں۔
مودی کی کامیابی ہندو قوم پرستی کو سرکاری سرپرستی میں ریاستی نظریے میں بدل دیگی۔ مذہبی تعصب و منافرت، ایسی صورت میں، ریاست کے آئیڈیل تصورات میں بگاڑ کے بجائے مستحسن و مقبول رویے بن جائیں گے۔ مودی اگر ہار بھی جاتا تو ہندو قوم پرستی کا منصوبہ نہ بکھرتا اور نہ ختم ہوتا، بلکہ وہ کچھ عرصے کیلئے رخصت پر چلا جاتا۔ بی جے پی کی قیادت اور کارکنان مودی سے ایسے ہی آگے نکل جائیں گے، جیسے خود مودی اپنے سرپرستوں اور بڑوں سے آگے نکل گیا تھا ، اور ایک نئی جتھہ بندی کرکے سامنے آئیں گے۔ یہ حکومت میں نا اہل ہیں لیکن حزب اختلاف میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔
وزیر اعظم بننے سے پہلے، مودی کی زندگی ایک سبق ہے یہ سمجھنے کیلئے کہ کسطرح کاروباری اشرافیہ شرمناک انداز میں سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیجاسکتی ہے۔ گجرات فسادات کے بعد ان میں سے بہت ساروں نے مودی سے تعلق توڑ دیا تھا۔ لیکن بعد ازاں پھر اس کی سرپرستی پر تیار ہوگئے یہ کہہ کر کہ منڈی مارکیٹ کے حصول کے علاوہ انہیں کچھ اور نہیں چاہیے۔ مزید براں، روزانہ ہزاروں سرگرم کارکن سارے بھارت میں پھیلے ، ہندوقوم پرستی کی تبلیغ اور نیچے سے اٹھتے انقلاب کا سامان کررہے ہیں۔انھیں اپنے مشن پر یقین ہے ، ان کے دشمنوں نے اپنے دشمنوں کو بہت پہلے خیرباد کہہ دیا ہے۔"

مزیدخبریں