نئی دہلی ( بی بی سی) انڈین دارالحکومت نئی دہلی کے قلب میں واقع راج پتھ (جو پہلے کنگز ایونیو کہلاتا تھا) دہلی والوں کے لیے ویسا ہی ہے جیسے نیویارک والوں کے لیے سینٹرل پارک یا پیرس والوں کے لیے شانزے لیزے۔ اس سڑک کے دونوں جانب اچھی تراش خراش والے وسیع و عریض لان دہلی والوں کے لیے سردیوں میں دھوپ سینکنے اور گرمیوں کی شاموں میں آئس کریم سے لطف اندوز ہونے کی جگہ ہے۔ لیکن تین کلومیٹر (1.8 میل) لمبی یہ سڑک، جو انڈین ایوان صدر سے انڈیا گیٹ اور جنگ کی ایک یادگار تک پھیلی ہوئی ہے، اب دھول اور مٹی سے اٹی پڑی ہے۔ اس سڑک پر جگہ جگہ کھدائی کی جا چکی ہے اور تھوڑے تھوڑے وقفے پر رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں تاکہ لوگ اس کے قریب نہ جا سکیں جبکہ اب یہاں تصویر لینا یا ویڈیو بنانا بھی ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ یہ سب ’وسٹا پروجیکٹ‘ کا ایک حصہ ہے جو کہ ایک بڑا تعمیراتی منصوبہ ہے اور اس کے تحت ایک نئی پارلیمنٹ، نائب صدر اور وزیر اعظم کے لیے نئے مکانات اور کثیر المنزلہ دفاتر تیار کیے جانے ہیں۔ اس منصوبے پر 200 ارب روپے کی لاگت کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ رقم لوگوں کی فلاح و بہبود پر یا دہلی کی ہوا صاف کرنے پر خرچ کی جا سکتی ہے جو کہ دنیا میں سب سے زیادہ آلودہ ہے۔ انڈیا کووڈ 19 کی دوسری تباہ کن لہر سے نبرد آزما ہے مگر اس دوران بھی اس منصوبے پر کام جاری و ساری ہے۔ ناقدین نے وزیراعظم نریندر مودی کی ترجیحات پر سوال اٹھاتے ہوئے ان کا موازنہ ’روم کے بادشاہ نیرو‘ سے کیا ہے کہ جب ’روم جل رہا تھا تو نیرو بانسری بجا رہا تھا‘ (یعنی حالات کی سنگینی سے بے خبر تھا۔) حزب اختلاف کے رہنما راہول گاندھی نے اسے ایک ’مجرمانہ بربادی‘ قرار دیا ہے اور مودی سے اپیل کی ہے کہ وہ وبائی مرض سے نمٹنے پر توجہ دیں۔ مودی کو لکھے گئے ایک کھلے خط میں سکالرز نے اس منصوبے کو وسائل کا نقصان کہا ہے اور کہا ہے کہ اس کا استعمال 'زندگیوں کو بچانے کیلیے کیا جا سکتا ہے۔' لیکن سب سے زیادہ تنقید وزیر اعظم کے گھر کی تعمیر پر ہو رہی ہے جسے دسمبر 2022 تک مکمل ہونا ہے اور یہ اسی منصوبے کا ایک حصہ ہے۔