میاں غفار احمد
شدید گرمی کے باوجود پنجاب میں پی ٹی آئی اور پولیس کے مابین مقابلہ جاری ہے ۔اس مرتبہ حکومت کی لانگ مارچ کو روکنے کی منصوبہ بندی خاصی بہتر رہی مگر اس کے باوجود پولیس کی معاونت کیلئے بھیجے گئے چند سول کپڑوں میں ملبوس افراد نے گاڑیوں کے شیشے توڑے اور لانگ مارچ کے شرکاء پر حملہ اور لاٹھی چارج کے ساتھ ساتھ آنسو گیس کا بے دریغ استعمال کیا ۔کنٹینرز تو ہٹائے جا رہے ہیں اور جو موٹر وے کی سڑک پر تار کول بچھاکر کانچ کے ٹکڑے پھیلائے گئے ہیں ان سے گزرنے کیلئے پی ٹی آئی نے کباڑ مارکیٹ پشاور سے لوہے کی آہنی چادریں منگوا لی ہیں جن کے ا وپر سے جلوس کے شرکاء کی گاڑیاں بآسانی گزر سکتی ہیں۔ وفاقی وزیر مملکت برائے داخلہ عبد الرحمٰن خان کانجو اسلام آباد میں بنائے گئے کنٹرول روم میں بیٹھ کر ملک بھر سے معلومات لے رہے ہیں ۔انہوں نے اپنے ذرائع سے جو معلومات فراہم کی ہیں ان کے مطابق کے پی کے سے عمران خان بیس ہزار افراد پر مشتمل قافلہ لیکر روانہ ہوئے ہیں ۔ دوسری طرف پشاور اور صوابی کے صحافتی ذرائع بتا رہے ہیں کہ پشاور شہر سے تقریباً ایک لاکھ افراد اسلام آباد کیلئے روانہ ہوئے ہیں ۔ اور انہی ذرائع کے مطابق شرکائے لانگ مارچ کا اسلام آباد پہنچنے کا سلسلہ لانگ مارچ کے فوری بعد شروع ہوگیا تھا تاہم پی ٹی آئی کے رہنما ، اراکین اسمبلی و دیگر لوگ جو اپنے شہروں سے غائب ہیں وہ پہلے ہی اسلام آباد میں موجود ہیں ۔حکومت نے اگرچہ موٹر وے اور ہائی وے بلاک کی ہیں مگر لانگ مارچ میں گوگل میپ سے خاصی مدد لی گئی ہے ۔
الیکشن کمیشن نے اپنی نشستوں سے نااہل ہونے والے اراکین اسمبلی کی خالی نشستوں پر جولائی میں الیکشن کروانے کا اعلان کردیا ہے اورجنوبی پنجاب کے تقریباً تمام اضلاع میں ضمنی الیکشن ہوں گے ۔الیکشن کمیشن نے یہ ایک اچھا فیصلہ کیا ہے تاہم اس فیصلے پر اطلاق حالیہ لانگ مارچ کے نتائج پر سامنے آئے گا ۔ذرائع کے مطابق رواں ہفتے میں پنجاب سے نون لیگ کے چھ مزید اراکین اسمبلی مستعفی ہورہے ہیں اس طرح پنجاب میں حکومتی پارٹی پر بڑا سوالیہ نشان آجائے گا اور سپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے محرک کے حاضر نہ ہونے پر مسترد کیے جانے کے بعد زیادہ مضبوط اور محفوظ طریقے سے سیاسی کھیل کھیل رہے ہیں ۔ مسلم لیگ ق کے ایک قریبی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ ق لیگ کے اندرونی اختلافات ختم ہوچکے ہیں ۔پارٹی کے مستقبل کے حوالے سے چودھری شجاعت اب بھی یہ خواہش رکھتے ہیں کہ مسلم لیگ نون کے ساتھ کوئی باعزت ڈیل ہو جائے مگر ق لیگ کے خلاف مسلم لیگ ن نے جو یہ سخت انتقامی کارروائیاں کی تھیں وہ صلح کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
اوکاڑہ سے ملنے والی معلومات کے مطابق مسلم لیگ ن کی مقامی قیادت کی دن رات کوششوں کے باوجود ہمیشہ سے مسلم لیگ کا گڑھ کہلائے جانے والے اوکاڑہ کے عوام نے جب کوئی رد عمل نہ دیا اورجلسہ گاہ میں جوں کی توں صورتحال برقرار رہی تو اس کے پیش نظر موسم کی خرابی کے بہانے جلسہ منسوخ کرنا پڑا۔اوکاڑہ کے ذرائع کے مطابق ریاض الحق جج اگر صرف اپنی برادری اور اپنے کاروباری اداروں سے منسلک لوگ ہی جمع کرلیتے تو جلسہ گاہ بھری جا سکتی تھی اور کیمرہ اسے مزید بڑا دکھا سکتا تھا۔مگر اس وقت اوکاڑہ میں مسلم لیگ کی قیادت کو ایک تبدیل شدہ عوامی سوچ کا سامنا ہے اور سچ یہ ہے کہ ساڑھے تین سال تک عوام کو کوئی خاص ریلیف نہ دینے والے عمران خان کا ’’ امپورٹڈ حکومت نامنظور ‘‘ اور ’’ ہم کوئی غلام ہیں ‘‘ کا نعرہ سر چڑھ کر بول رہا ہے۔
جنوبی پنجاب کی سڑکوں پر آج ہو کا عالم ہے اور حسب روایت جنوبی پنجاب میں عوام تو پی ٹی آئی کی اپیل پر باہر نکل رہے ہیں مگر لیڈر نظر نہیں آرہے جس کیوجہ سے اس خطے میں تادم تحریر کوئی بڑا جلوس دیکھنے کو نہیں ملا۔ کیونکہ رحیم یار خان سے جی ٹی رو ڈپر انگنت ناکے ہیں حتی کہ برانچ روڈز بھی ٹریکٹر ٹرالیاں رکھ کر بند کردی گئی ہیں۔اس حد تک رکاوٹ ہے کہ ایمبولینس کو بھی راستہ نہیں دیا گیا اور باراتی سڑکوں پرخوار ہوتے رہے ۔ ہوٹلوں والے منہ مانگے دام وصول کر رہے ہیں۔حکومت خواہ کوئی بھی ہو مگر یہ بات سچ ہے کہ ہر کسی نے پولیس کا آزادانہ اور بے دریغ استعمال کیا اور قانون کے محافظوں نے ہی قانون کی دھجیاں اڑانے میں حکومتوں کی معاونت میں ہمیشہ اہم کردار ادا کیا۔کیونکہ پولیس کو ایسا کرنے میں ہمیشہ فائدہ ہوتا ہے ایک غیر قانونی کام حکومتی ایماء پر کرنے کے بعد پولیس کئی غیر قانونی کام اپنی مرضی سے کرتی ہے ۔
پی ٹی آئی کی رہنما قربان فاطمہ کی غیر قانونی حراست پر ریمارکس دیتے ہوئے عدالت نے کہا کہ ’’پولیس اور کریمنلزکا ایک ہی رویہ ہو تو لوگ کہاں جائیں ، پولیس وہ حکم مانے جو قانون کے مطابق ہوں اور غیر قانونی احکامات تسلیم نہ کرے۔ پی ٹی آئی کی رہنما کی رہائی کے احکامات جاری کرتے ہوئے مسٹر جسٹس سہیل ناصر نے کہا کہ پولیس نے کس جرم کے تحت خاتون رہنما کو پکڑا ہے ۔سپیشل برانچ کی رپورٹ پر تحریک انصاف کے کارکنوں کو مارچ سے قبل گرفتار کرنے کی ہدایات تھیں ۔ معزز عدالت نے پوچھا کہ پولیس کس قانون کے تحت گھروں میں داخل ہوئی کیا وردی کا مطلب سر جھکا کر احکامات تسلیم کرنا ہے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ حکام بالا نے زبانی حکم دیا تھا۔ فاضل جج نے پولیس کے چھاپے کی ویڈیو دیکھی اور کہا کہ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں ، پولیس کو وردی شہریوں کے تحفظ کیلئے پہنائی جاتی ہیںاس لئے پولیس وہ حکم مانے جو قانون کے مطابق ہے۔
موٹروے پر بچھاےکانچ کے ٹکڑوں پر آہنی چادروں کا استعمال
May 26, 2022