شہر لاہور سیاسی تحریکوں کو جنم دیتارہا

ندیم بسرا
پاکستان کا دل لاہور ہمیشہ ہی سیاسی تحریکوں کا قلعہ رہا ہے ۔لاہور کے لوگ کسی تحریک کو کامیاب بناتے اور ناکام بھی بناتے ہیں۔لاہور میں موچی گیٹ کا پارک ہو یا ناصر باغ جہاں لاہوریوں نے انقلابی تحریکوں کو جنم لیتے اور کامیاب ہوتے دیکھا ہے ایسے  رہنمائوں کو بھی دیکھا  ہے  جن میںعطاء اللہ شاہ بخاری ،آغا شورش کاشمیری، نوبزداہ نصر اللہ ،حبیب جالب  جیسی  قد آور شخصیات بھی شامل تھیں ۔پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن گھر میں رکھی گئی،ذوالفقار علی بھٹو نے بھی لاہور میں سیاسی تحریک شروع کرکے کر پیپلز پارٹی کو ملک کی بڑی سیاسی جماعت بنایا ، بے نظیر بھٹو بھی 1986 میں جلا وطنی کے بعد وطن واپس آئی اور لاہور یوں نے ان کا شاندار استقبال کیا اور ان کو بطور سیاسی قائد کے شناخت دی ۔1999میں  جنرل پرویز مشرف  کے ہاتھوںنواز شریف اپنی منتخب حکومت کے خاتمے کے بعد جب دوبارہ نومبر  2007 ء میںوطن واپس آئے تو  لاہور ہی کواس تاریخی استقبال کا اعزاز حاصل ہوا۔  2008ء میں جب ججز کی بحالی کی تحریک  فیصلہ کن موڑ پر پہنچی تو اس کی قیادت کرتے ہوئے بھی نواز شریف نے اسے کامیابی سے ہمکنار کیا  اور ان کو اس میں کامیابی ملی ۔پھر جب تحریک انصاف کی بنیاد ڈالی گئی تو عمران خان کو بطور سیاسی قائد لاہور نے ہی مینار پاکستان میں 2011 ء  کے جلسے میں شناخت دی ۔
  سیاسی تحریکوں کا مستقبل لاہور میں ان کی جدوجہد کی کامیابی یا ناکامی سے ہی وابستہ  ہے ۔حالات اور وقت بدلتے  گئے ، حکومتیں آتی رہی  جاتی رہیں، 2018 میں وقت کا پہیہ گھوما اور  عمران خان کی پارٹی برسر اقتدار میں آگئی ،پھر ایک جمہوری طریقے سے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے  اس حکومت کو ختم کیا گیا ۔پی ڈی ایم کے سیاسی اتحاد نے اپریل  2022 میں ملک کی باگ دوڑ  خود سنبھالی اور شہباز شریف ملک کے وزیراعظم منتخب ہوچکے ہیں۔ اس کے بعد سے عمران خان سیاسی میدان میں ہیںاور ملک کے طول وعرض میں جلسے کر چکے ہیں ۔حالیہ دنوں میں ان کی جماعت نے پشاور میں بیٹھ کر حقیقی لانگ مارچ کی کال دیدی۔یہ’ لانگ مارچ ‘ ان کا  ایک اور خواب ہے۔عمران خان کو یقین تھا کہ  کہ 25 مئی کو  لوگ اس کی آواز پر لبیک کہیں گے ملک کے عوام باہر نکلیں گے ۔انہیں یقین تھا کہ ان کی ٹیم نے ہر جگہ اس حوالے سے تیاری کررکھی ہوگی،مگر گزشتہ روز ایسا  لاہور میں دیکھنے کو نہیں ملا ۔عمران خان کی کال پر لبیک نہیں کیا اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے ؟۔کیا  پنجاب (لاہور ) کی اپنی ٹیم انتشار کا شکار تھی ؟۔کیونکہ دوہزار چودہ کا جلسہ کچھ اور بیان کررہا تھا اورلوگوں کے باہر نہ نکلنے کی وجہ یہ تو نہیں کہ اقتدار میں آکر مزہ لوٹنے والے سیاسی قائدین نے اپنے اکثرکارکنوں کو نظر انداز کردیا تھا اسی وجہ سے پارٹی رہنماء لوگوں کو اس لانگ مارچ پر قائل نہ کرسکے ۔شائدایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ پنجاب خصوصاً لاہور کی قیادت ایک پیج پر نہیں تھی یا انہیں ماضی کی نسبت اس لانگ مارچ میں  ان کو نظر نہ آنے والی کسی قوت کا سہار انہ تھا ، یا پولیس کی جانب سے پکڑ دھکڑ نے ان کے حوصلے بھی کمزور کر دئے تھے ؟، یا کچھ قائدین کی جانب سے ایسی ویڈیو بھی وائرل ہوئیں جن سے کارکنوں کے حوصلے پست ہوگئے ؟ایک  دلچسپ ویڈیوسابق صوبائی وزیر میاں محمود الرشید کی بھی آئی  جو 23 مئی کی رات کے کسی پہر کی تھی جس میں وہ خود بتارہے تھے کہ گھر میں اجلاس ہورہا تھا تو اس کے چوکیدار نے شور مچایا کہ ’’پولیس آگئی پولیس آگئی ‘‘جس کے بعد وہ ایک سٹور روم میں جاکر ایک الماری میں چھپ گئے اور باقی رہنماء اندھیرے میں  چھت پر جاکر چھپے اور کئی خواتین درختوں کی آڑ لے کر چھپی رہیں ،جب ان کا دم گھٹنے لگا تو وہ باہر آگئے ، پھر انہوں نے کارکنوں کو فون کرنا شروع کئے  تو باہر  کارکن اکھٹے ہوگئے ۔ پھر اگلی صبح ایک اور ویڈیو بھی آئی جس میں پولیس نے میاں محمودالرشید کو گرفتار کر لیا تھا۔ سابق صوبائی وزیر ڈاکٹر مراد راس نے بھی گرفتاری دی اور پولیس نے انہیں آسانی سے گرفتار کر لیا ۔اب سوال یہ ہے کہ جب ان سب کو معلوم تھا کہ ان کی گرفتاری ہوجانی ہے تو انہوں نے دوسرا آپشن کیوں نہیں اپنایا ؟۔ پھر ایسی ویڈیو خودوائرل کیں جس میں پولیس نے انہیں گرفتار کیا شائد اس سے کارکنوں کا حوصلہ ٹوٹ گیا ۔
بعض سیاسی حلقوں میں یہ باتیں کی جارہی ہیں کہ عمران خان کی کال پر لاہورکی قیادت  لوگ اکھٹے نہیں کرپارہے  تھے کیونکہ پی ٹی آئی کے ورکرز اپنے ان لیڈرز سے نالاں  دکھائی دیتے رہے ۔ انہیں پتا تھا کہ لوگ اکھٹے نہیں ہونگے تو انہوں نے گرفتاری ہونے میں ہی عافیت جانی تاکہ عمران خان کے آگے کوئی معقول جواز بیان کرسکیں۔ جبکہ لاہور کے دیگر رہنمائوںظہیر عباس کھوکھر،ملک ندیم عباس بارا کی کوئی سرگرمی اس تحریک میں نظر نہیں آئی کہ وہ کارکنوں کو اکھٹا کرسکیں وہ اس تحریک سے لاتعلق نظر آئے ،23 مئی کی رات پولیس نے حماد اظہر ،شفقت محمود ،میاںا سلم اقبال،ولید اقبال ،زبیر نیازی ،جمشید اقبال چیمہ ،مسرت جمشید چیمہ ،سینیٹر اعجاز چودھری کے گھروں پر بھی چھاپے مارے مگر انہیں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہ ملی ،میاں اسلم اقبال کے گھرپر پولیس نے متعدد چھاپے مارے مگر انہیں پولیس تلاش نہ کرسکی ۔ پولیس نے میاں اسلم اقبال کے چھوٹے بھائی میاں افضل اقبال کو گرفتار کر لیا میاں اسلم اقبال لانگ مارچ کے دن تک پولیس کے ہاتھ نہ آئے وہ بھی کارکنوں کو متحرک کرتے رہے ،ولید اقبال بھی چھاپے کے وقت پولیس کے ہاتھ نہ آئے ،اسی طرح شفقت محمود ،حماد اظہر  کے گھروں دفاتر پر چھاپے مارے گئے مگر وہ کارکنوں کے درمیان نظر آتے رہے  ۔  ڈاکٹر یاسمین راشد کے دفاتر اور گھروں پیں چھاپے مارے گئے ،جمشید اقبال چیمہ ،مسرت جمشید اقبال کارکنوں کو متحرک کرتے نظر آئے ،شفقت محمود بھی پولیس کو چکمہ دیتے رہے  ۔پی ٹی آئی لاہور کی قیادت کو یہ دیکھنا ہوگا کہ کارکنوں کی بڑی تعداد گھروں سے کیوں نہیں نکلی ؟۔کیا پی ٹی آئی لاہور کی قیادت ایک پیج پر نہیں ہے ؟۔کیا کارکن واقعی ان سے نالاں ہیں ؟کیا اقتدار کے دوران حقیقی کارکنوں کو ان رہنمائوں نے نظر انداز کیا  ہے ؟ایسے بہت سارے سوالات ہیں جس پر  غور کرنے کی ضرورت ہے۔عمران خان کو سوچنا ہوگا اور کارکنوں کی سوچ اور فیصلوں کے احترام کو  صلاح و مشورہ اور جماعت کے منشور میں   اہمیت دیناہوگی وگرنہ پی ٹی آئی بھی تاریخ کے پنوں میں کہیں گم ہوجائے گی ۔ 

 شفقت محمود ،حماد اظہر کے گھروںپر چھاپے ،وہ کارکنوں کے درمیان پائے گئے ،ظہیر عباس کھوکھر،ندیم بارا سرگرم نہ رہے

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...