انگریزی میں فرائیڈین سلپ (Freudian slip) کی ترکیب یا اصطلاح اس موقع پر استعمال کی جاتی ہے جب کوئی شخص غلطی سے کوئی ایسی بات کہہ دے جس سے اس کے تحت الشعور سے جڑے احساسات منکشف ہو جائیں۔ نفسیات کے ماہرین کا خیال ہے کہ ایسا اس صورت میں بھی ہوسکتا ہے جب کسی شخص کے اندر کسی جرم یا گناہ کو کرنے کی وجہ سے ایک احساسِ تقصیر چھپا ہوا ہو لیکن وہ کسی بھی سبب سے شعوری طور پر اس کا اعتراف نہ کرنا چاہے۔ کچھ ایسی ہی صورتحال امریکا کے سابق صدر جارج ڈبلیو بش کے ساتھ گزشتہ ہفتے میں پیش آئی جب امریکی شہر ڈیلس میں واقع صدارتی مرکز میں خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا:
The decision of one man to launch a wholly unjustified and brutal invasion of Iraq... I mean of Ukraine.
(ایک شخص کا عراق پر مکمل طور پر غیر منصفانہ اور ظالمانہ حملہ کرنے کا فیصلہ۔۔۔ میرا مطلب یوکرائن پر۔)
اپنی اس ’غلطی‘ پر جارج بش تو نادم ہوئے لیکن ان کے سامنے بیٹھے ہوئے لوگوں نے قہقہے لگائے۔ یہ قہقہے بالعموم تمام مغربی شہریوں اور بالخصوص امریکی عوام کی بے حسی اور سنگ دلی کا ایک اظہار ہیں، بصورتِ دیگر یہ ممکن ہی نہیں کہ ایک ایسا واقعہ جس کے نتیجے میں بلا مبالغہ لاکھوں افراد بے گناہ مارے گئے اس کا بیان لوگوں کے لیے ہنسی ٹھٹھے کا سامان مہیا کرے۔ اگر یقین نہ آئے تو سماجی رابطے کے کسی بھی پلیٹ فارم پر دوسری جنگِ عظیم میں یہودیوں کی مبینہ نسل کشی سے متعلق کوئی معمولی سی بات لکھ کر دیکھ لیجیے، آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ مغربی عوام اس سلسلے میں کتنے حساس ہیں۔ مبینہ یہودی نسل کشی کا واقعہ اب سے تقریباً آٹھ دہائیاں قبل 1941ء سے 1945ء کے دوران پیش آیا اور کسی کے بھی پاس ایسے ثبوت اور شواہد نہیں ہیں جو کسی شک و شبے کے بغیر مکمل طور پر اس واقعے میں مرنے والوں کی اس تعداد (تقریباً ساٹھ لاکھ) کی تصدیق کرسکیں جس کا یہودیوں کی طرف سے دعویٰ کیا جاتا ہے۔
دوسری جانب صورتحال یہ ہے کہ عراق میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں (Weapons of Mass Destruction) کو بہانہ بنا کر اب سے تقریباً دو دہائیاں قبل امریکا نے برطانیہ، آسٹریلیا اور پولینڈ کی افواج کو ساتھ لے کر 19 مارچ 2003ء کو فضائی اور 20 مارچ کو زمینی حملہ کیا۔ مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے اداروں کے پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق، عراق میں دس لاکھ سے زائد لوگ مارے گئے۔ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ پورے عراق میں سروے وغیرہ کرنے کے بعد ترتیب دیے گئے، یعنی دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ ان اعداد وشمار کی تصدیق کی جاسکتی ہے۔ عراق میں امریکا اور اس کے حواریوں نے جو خون کی ہولی کھیلی ممکن ہے اس کے نتیجے میں مارے جانے والوں کی تعداد دس لاکھ سے کہیں زیادہ ہو لیکن مغربی اداروں کے تصدیق شدہ اعداد و شمار کو بھی درست مان لیا جائے تو عراق جنگ کا واقعہ حالیہ عالمی تاریخ کے چند بڑے سانحات میں سے ایک ہے۔
رواں صدی کی اب تک گزرنے والی تقریباً دو دہائیوں کے دوران پیش آنے والے جنگ و جدل یا قتل و غارت گری کے بڑے بڑے واقعات پر نظر ڈالیں اور ان کے حوالے سے مغربی شہریوں کے ردعمل کا جائزہ لیں تو ڈیلس میں سابق امریکی صدر کے خطاب کے دوران ہونے والی ’غلطی‘ پر حاضرین نے جس ردعمل کا اظہار کیا وہ غیر معمولی واقعہ ہرگز نہیں لگتا۔ ہاں، مغربی ممالک کے عوام دکھ اور تکلیف کا اظہار اس وقت کرتے ہیں جب آگ ان کے اپنے آشیانوں تک پہنچتی ہے یا کسی نہ کسی طرح آگ کی حدت انھیں متاثر کرنے لگتی ہے ورنہ پورا چمن جل کر خاک ہو جائے انھیں کوئی پروا نہیں ہوتی۔ اس بات پر روس کے یوکرائن پر حملے کے بعد مغربی ذرائع ابلاغ کی کوریج نے بھی مہرِ تصدیق ثبت کی۔ یوکرائن یورپ کا حصہ ہے اس لیے وہاں ہونے والی جنگ کے نتیجے میں مغربی ذرائع ابلاغ کی چیخ و پکار تھمنے میں ہی نہیں آرہی لیکن یورپ اور امریکا نے مل کر پہلے افغانستان اور پھر عراق میں جو جنگ چھیڑی اس پر یہی صحافتی ادارے غاصب افواج کو ہیرو بنا کر پیش کرتے رہے اور ان کی طرف سے کی جانے والی آتش و آہن کی بارش کو بارانِ رحمت بتاتے رہے۔
مغربی اقوام کے اسی دوغلے پن کی وجہ سے مشرق کے تقریباً ترقی پذیر ممالک کے عوام ان سے نفرت اور بیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مغربی اقوام نے گزشتہ تین چار صدیوں کے دوران دنیا کے مختلف خطوں اور ممالک کو جس طرح لوٹ لوٹ کر اپنے گھر بھرے ہیں اس کی مثال دنیا کی تاریخ میں شاید ہی کہیں ملے۔ یہ سلسلہ آج بھی رکا نہیں ہے اور مغربی ممالک اب بھی وسائل چوری کرنے کے لیے کئی طرح کے حیلے بہانوں سے مختلف خطوں اور ممالک میں اپنی غاصب افواج کو بھیج کر وہاں موجود نظامِ حکومت کو تباہ کر کے اپنے پنجے گاڑ لیتے ہیں اور تب تک اس ملک کی جان نہیں چھوڑتے جب تک اس کے وسائل کا بڑا حصہ غصب نہ کرلیں۔ جن ممالک پر وہ براہِ راست حملہ نہیں کرتے وہاں اپنے ایسے مقامی نمائندے پیدا کرلیتے ہیں جو پیسوں اور سہولیات و مراعات کی خاطر اپنے مغربی آقاؤں کے ایما پر اپنے ملک اور معاشرے کے خلاف ہر کام کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ یوں اپنی جغرافیائی حدود سے نکلے بغیر بھی مغربی ممالک کئی خطوں اور ملکوں پر اپنا قبضہ جمائے ہوئے ہیں یا جمانے کی کوشش میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔