پاکستان کے کم عمر ترین ورلڈ ایمچور سنوکر چیمپئن احسن رمضان اس حوالے سے خوش قسمت ہیں کہ کم عمری میں یہ اعزاز حاصل کیا ہے۔ شاید وہ بدقسمت بھی ہیں کہ ایسے وقت میں عالمی چیمپئن بنے جب ملک میں سیاسی حالات بہت اچھے نہیں تھے۔ حکمرانوں کی توجہ کہیں اور تھی احسن کی بڑی کامیابی کو وہ پذیرائی نہیں مل سکی جس کے وہ حقدار تھے۔ حکومت بدلی ہے لیکن ابھی تک سیاسی درجہ حرارت میں اتنی شدت ہے کہ حکمرانوں کی توجہ کھیل کی طرف کم ہی دکھائی دیتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس بڑی کامیابی پر حکومتی سطح پر احسن رمضان کی حوصلہ افزائی کی جاتی لیکن اب تک ایسا نہیں ہو سکا۔ عالمی چیمپئن نے ایک ویڈیو بھی جاری کی جس میں انہوں نے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات اور ٹرافی ان کے ہاتھوں وصول کرنے اور ایک تصویر کی خواہش کا اظہار بھی کیا۔ احسن رمضان ایک تو عالمی چیمپئن ہیں دوسرا جن حالات میں انہوں نے یہ چیمپئن شپ جیتی ہے وہ ان کے حوصلے،ہمت، لگن، دلجمعی اور جوش و جذبے کی بہت بڑی مثال ہے۔ احسن کے خواب بہت بڑے ہیں ان کی تعبیر کے لیے حکومتی تعاون کی بہرحال ضرورت ہے۔ حکومتی سرپرستی احسن پر کوئی احسان نہیں ہے بلکہ یہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ ایک کم عمر عالمی چیمپئن کو اس کا جائز حق اور مقام دیتے ہوئے ہر قسم کی سہولیات فراہم کرے تاکہ وہ بین الاقوامی سطح پر ملک کا نام روشن کر سکے۔ ابھی اس کی عمر صرف سترہ سال ہے وہ عالمی چیمپئن بن چکا ہے اس کی زندگی کے بہترین سال باقی ہیں ان سے فائدہ اٹھانا حکومت کی ذمہ داری ہے یہ وقت ضائع نہیں ہونا چاہیے۔
کاونٹی کرکٹ میں ٹیسٹ کرکٹر شان مسعود کی بہترین کارکردگی کا سلسلہ جاری ہے وہ مسلسل رنز کر رہے ہیں۔ قومی ٹیم سے ڈراپ ہونے کے بعد شان مسعود نے پاکستان میں ہر سطح کی کرکٹ میں رنز کیے، پی ایس ایل میں بھی بہت اچھی بیٹنگ کرتے کرتے وہ کاؤنٹی کرکٹ کھیلنے انگلینڈ پہنچے تو وہاں بھی ان کا بیٹ رنز اگل رہا ہے۔ شان مسعود کی قومی ٹیم میں واپسی کے لیے بھی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ ٹیسٹ کرکٹر عاقب جاوید کہتے ہیں کہ شان مسعود کو آسٹریلیا میں ہونے والے ٹی ٹونٹی ورلڈکپ کے لیے ٹیم کا حصہ بنانا چاہیے وہ قومی ٹیم کے کام آ سکتے ہیں۔ سابق کپتان سلمان بٹ بھی شان کی بہتر ہوتی بیٹنگ اور کھیل کی سمجھ بوجھ کو دیکھتے ہوئے افتتاحی بیٹر کو ٹیم کا حصہ بنانے کے حق میں ہیں۔ شان مسعود نے کاؤنٹی سیزن میں بہت عمدہ کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے دو ڈبل سنچریاں بھی سکور کیں، وہ پلیئر آف دی منتھ کا ایوارڈ تو جیت ہی چکے تھے اب انہیں انگلش ٹی ٹونٹی بلاسٹ کے لیے ڈربی شائر فالکنر کا کپتان بھی مقرر کر دیا گیا ہے۔ گوکہ انہیں قومی ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا اس کی وجہ کارکردگی کے علاوہ کچھ اور بھی ہے بہرحال شان کو ادھر ادھر دیکھنے اور اپنے نمبر پر سمجھوتا کرنے کے بجائے رنز کرنے پر ہی توجہ رکھنی چاہیے اور کوشش کریں کہ اپنے نمبر پر ہی قومی ٹیم میں کھیلیں۔ بہرحال انہوں نے مسلسل عمدہ کھیل سے سب کی توجہ حاصل کی ہے اور یہ تاثر بھی زائل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ وہ صرف ایک فارمیٹ کے کھلاڑی ہیں۔ شان مسعود کو موقع کسی وقت بھی مل سکتا ہے انہیں چاہیے کہ بہتر کارکردگی کا سلسلہ برقرار رکھنے پر توجہ رکھیں۔ قومی ٹیم میں دوبارہ جگہ بنانے کے لیے شان مسعود کی کارکردگی کم بیک کی خواہش رکھنے والے تمام کرکٹرز کے لیے ایک مثال ہے۔
ایک خبر یہ بھی ہے کہ فیفا ورلڈ کپ ٹرافی سات جون کو ایک روزے دورے پر پاکستان پہنچ رہی ہے۔ پاکستان فٹ بال فیڈریشن کی فیفا نارملائزیشن کمیٹی کو ٹرافی کی پاکستان آمد اور اس کے شیڈول سے آگاہی نہیں دی گئی۔ نارملائزیشن کمیٹی والے اس حوالے سے مکمل طور پر لاعلم ہیں۔ ویسے یار لوگ کہتے ہیں کہ وہ لاعلم سے زیادہ لاتعلق ہیں۔ جب ملک میں فٹبال ہی نہیں ہے تو ٹرافی کے آنے جانے سے کسی کو کیا فرق پڑتا ہے، فٹبال نہیں کھیلا جا رہا لیکن برسوں سے کمیٹی، کمیٹی کا مقابلہ ضرور ہے۔ کمیٹی والوں کا میچ ہونا چاہیے فٹبال کی خیر ہے اس میچ کا کیا ہے وہ بھی کبھی ہو ہی جائے گا۔ جیسے شاہین آفریدی دو ہزار تیس چالیس میں بھی کپتان بننے کو اعزاز سمجھ سکتے ہیں تو اس وقت تک فٹبال شروع ہونے کی امید بھی کی جا سکتی ہے۔ جس ملک میں فیفا ٹرافی کے حوالے سے یہ حالات ہوں وہاں کھیل کا کیا حال ہو گا اس کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ہے۔
کھیلو شان سے، فٹبال والے لاعلم یا لاتعلق اور احسن رمضان !!!!!
May 26, 2022