لکھاری کے لیے وسیع مطالعہ کی اہمیت سے انکار ممکن ہی نہیں۔سب سے سریع الحرکت عنصر مشاہدہ ہوتا ہے۔ وہ کمرے کی کھڑکی کھول کر باہر جھانکتا اور گلی کا ماحول دیکھتا ھے، بازار میں نکل کر حالات جانتا ہے اور عام آدمی کی روزمرہ دشواریوں کا جائزہ لیتا ھے تو وہ اپنے مشاہدات لکھے بغیر نہیں رہ سکتا اس لیے کہ لکھاری معاشرے کے دوسرے افراد و عناصر سے نسبتاً زیادہ فکر و نظر رکھنے والا حساس دماغ اور تیز نگاہیں رکھنے والا زمہ دار شہری ہوتا ھے ۔ وہ حالات و واقعات کو دیکھ کر کڑتا اور پس پردہ محرکات کا کھوج لگا کر اپنے قارئین کو حقائق سے آگاہ کرتے ہوئے پیغام دیتا ھے کہ معاشرے میں کہاں کہاں حکومت اور اکابرین کو بہتری لانے کی ضرورت ھے۔ اگر منظر نورا کشتی ہو یا کوئی دوسرے کھیل کا میچ فکسڈ ہو ، تو باوجود کھیل کے سارے لوازمات کی موجودگی کے کھیل خوشگوار نہیں ہوتا مثلاً، کھلاڑی ، طاقت ، وقت اور تماشائیوں کا ہجوم سب کچھ موجود ہونے کے اکھاڑے میں وہ جوش و رونق ہوتی ھے نہ کھیل کا وہ حسن ہوتا ھے اور نہ ہی کھلاڑیوں کا مورال اور وقار دیکھنے کو ملتا ھے۔ ۔ ایسی غیر اخلاقی اور ناپسندیدہ سرگرمیوں کی وجہ کھیل کے اصل مقاصد( تفریح اور صحت مندانہ مقابلہ) سے ہٹ کر سستی شہرت کا حصول ہوتا ہے۔
ہمارے ملک کے نظام ریاست اور طرز سیاست کا
حال بھی کچھ اسی کھیل سے ملتا جلتا ہے جو فکسڈ ہوتا ہے۔ کپتان عمران خان ، مبینہ طور پر اناڑی ٹیم کی وجہ سے ملک میں پھیلتی مہنگائی کم نہ کر سکا تو عہدے سے سبکدوش کر دیا گیا اور ملک کے درجن بھر گھاگ سیاسی قائدین کی تجربہ کار سیاسی جماعتوں کے ماہرین معاشیات، سیاسیات اور مالیات و سماجیات کے متفقہ لیڈر جناب شہباز شریف جو پچھلی تین دہائی سے صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہونے کا تجربہ رکھتے ہیں کو وزیراعظم منتخب کر لیا گیا۔ اگر صاحب اقتدار ، مصلحت پسندی کو تج کر دیانتداری اور مکمل غیر جانبداری سے اپنے فرائض ادا کرے تو اقتدار کا ذرہ ذرہ ، دفتری دیواروں کی ہر اینٹ اور قوانین و ضوابط کا لفظ لفظ اس کی حمایت کرنے لگ جاتاہے۔ حاکم کو دشواری وہاں پیش آتی ھے جہاں وہ فیصلے اپنوں کے نام پڑھ کر یا چہرے دیکھ کر کرنا چاہتا ہے۔ میاں شہباز کی انتظامی صلاحیتوں اور جراتوں کا افسانوی شہرہ اس لیے تھا کہ وہ صوبے کے وزیر اعلیٰ تھے اور وزیراعظم ان کا بڑا بھائی۔ وزیر اعلیٰ جو چاہتے ،جائز یا ناجائز وفاق ان کی مدد کرتا اور تحفظ بھی۔ اور اب انہیں بحثیت وزیر اعظم قدم قدم پر جواب دینا ہوتا ھے۔ اپنے حمایت کاروں کو بھی ، ووٹرز کو بھی اور سیاسی حریفوں کو بھی ۔ ساری مبینہ صلاحیتوں کی اب کلعی کھل گئی ہے شہباز سپیڈ کی۔
آج میاں شہباز شریف ملک کا چیف ایگزیکٹو ہو کر معلوم۔نہیں کسے پکار کر درخوست کر رہے ہیں کہ نیشنل سکیورٹی کونسل کا اجلاس بلایا جائے۔ کیا انہیں نہیں معلوم کہ ملک کا ہر ادارہ ان کے تابع ھے کسے ملک کی سیاست میں غیر آئینی اقدام کرنے کی دعوت دی جا رہی ھے۔ کسے کیا پیغام دیا جا رہا ھے
کہ " لاڈلے جتنی سپورٹ ہمیں ملتی تو ملک راکٹ کی طرح اوپر جاتا" یہ سیاست دان کسے سناتے ہیں کہ ادارے اپنی آئینی حدود میں رہ کر اپنا کردار ادا کریں ۔بولنے والے آج خود کو ماورائے آئین کیوں سمجھتے ہیں۔
یہی ھے سیاستدانوں کی وہ سیاسی نا اہلی جسے وہ آج تک چھپا چھپا کر عوام کو دھوکا دیتے رہے ہیں، مگر اب یہ دھندلکے چھٹنے شروع ہو گئے ہیں۔ عوام کو شعور ا چلا ھے۔کہ ان کا کام صرف ووٹ پول کرنا ہی نہیں بلکہ اپنے نمائندے سے سوال کرنے کا بھی اختیار ہے۔
مختلف حلقوں اور اداروں کی طرف سے حکومت وقت( عمران خان ) کو قانونی طریقے سے ، تحریک عدم اعتماد پارلیمنٹ میں پیش کر کے سبکدوش کیا گیا ۔ مگر جس سرعت اور غیر معمولی سرگرمیوں کے نتیجے میں کچھ اداروں اور افراد کی خلاف معمول دلچسپی اور ناقابلِ فہم جلد بازی میں فیصلے کئیے گئے ان کے جوابات ابھی تک عوام کو نہیں ملے یہ ایک تشویش ناک امر ہے۔
اگر سیاستدان اپنے قومی کردار کو پہچانیں اپنے فرائض خود ادا کریں تو، میری دانست میں ملک کو کوئی قوت ، کیا اندرونی کیا بیرونی کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچا سکتی ۔ ہم قومی ترقی کی اصل راہ اور ریاست سے نظریاتی وابستگی سے بے خبری میں انحراف کرتے ہیں، ہم شخصیت پرستی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ عملی زندگی میں کسی کی پیروی کرنا معیوب نہیں ہوتا مگر اس کو غلطی یا سہو سے مبرا سمجھ کر اس کی بات کو مانتے ہیں ہم خود بہت بڑی غلطی کرتے ہیں۔ یہ رویہ پارٹی سربراہ سے محبت نہیں بلکہ حماقت ھے۔