میں خود یہ سن کر بڑا حیران ہوا تھا کہ ایک نومولود بچے جس کا نام اماں نے جگنو اور اصل نام میر سارنگ گرمانی رکھا ہے ، اس ننھے بچے نے ڈائری لکھنی شروع کر رکھی ہے۔ حیرت تھی اور یقین کرنا حماقت کا مظاہرہ ۔یہ درست ہے کہ فیس بک کی وساطت سے ہم ہر روز اس ننھے بچے کی تصویریں دیکھتے اور دعائیں دیتے رہتے ہیں ، ان تصویروں میں ماں اور بچے کے باکمال اور لازوال رشتے کی مٹھاس بھی نظر آتی ہے ، اور ہر روز جگنو میر سارنگ گرمانی کے چہرے پر ایک نیا اعتماد بھی نظر آتا ہے ۔ایسا اعتماد صرف محبت ہی انسان میں پیدا کر سکتی ہے ۔پر یہ اعتماد اس حد تک بڑھ جائے گا کہ بچہ اپنے محسوسات قلم بند کرنا شروع کر دے، یہ بالکل نئی بات تھی ۔ پر یہ ہو کیسے سکتا ہے؟ جواب ملا کہ بھئی دیکھو وہ ایک پڑھی لکھی ماں کا بیٹا ہے، ماں پروفیسر ہے ، مصنفہ ہے ، کثرت سے سوچتی ہے ، اس میں سے ابھی پچیس فی صد لکھتی اور باقی کا ہضم کر جاتی ہے ، بعض پرچہ نویسوں کو شک ہے کہ وہ چھپ چھپ کر شاعری بھی کرتی ہو گی ۔ اور یہ ننھا جگنو اس کا سب سے قریبی دوست ، سب سے بڑا پیار اور سب سے عزیز رشتہ ہے۔دراصل اس کی اماں نے اس ننھے بچے کے ساتھ اس کی ولادت سے پہلے ہی اتنی دوستی ، اتنی بے تکلفی اور اتنی اپنائیت پیدا کر لی تھی کہ اس ننھے بچے نے وہ باتیں سننا اور سمجھنا شروع کردیں ،جو ماں کے دماغ میں چل رہی ہوتی تھیں ۔اس ننھے بچے نے اپنی ماں ہی سے سن کر اس دنیا کو بھی سمجھنا شروع کر دیا تھا ،جہاں وہ تشریف لانے والا تھا۔اب اسے اس نئی اور انوکھی دنیا کے بارے میں تجسس تو تھا ،پر خوف بالکل نہیں تھا۔وہ لکھتا ہے کہ کچھ ہی دنوں بعد مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ میں بہت ہی محفوظ اور پرسکون جگہ پر ہوں ۔یہاں مجھے لگا کہ میرا احساس میری ماں کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔میں نے اس کی پیار بھری لوریاں سن سن کر اور جو باتیں وہ میرے ساتھ اکثر کرتی رہتی ،انہیں سمجھ سمجھ کر فیصلہ کر لیا تھا کہ میں بڑا ہو کر اپنی اماں ہی سے دوستی کروں گا ۔ابھی تو یہ فیصلہ نہیں کرسکتا کہ یہ ماں زیادہ اچھی بنے کی یا دوست،مجھے لگتا ہے کہ یہ دونوں رشتے نبھا سکتی ہے۔
جگنو میر سارنگ گرمانی نے اپنی ڈائری میں لکھا ہے کہ میں اپنی اماں کو کیسے سمجھاؤں کہ میرے وقار کا
خیال رکھا کریں ۔ ان کا جب جی چاہتا ہے میرے کپڑے کھول کر دیکھنا شروع کر دیتی ہیں۔وہ اکثر خیال نہیں کرتیں کہ میں کیا خیال کر رہا ہوں ، کبھی میں کچھ سوچ رہا ہوتا ہوں ،تو وہ بلند آواز میں مجھ سے ننھے بچوں جیسی آواز میں باتیں شروع کر دیتی ہیں۔میرے دماغ میں بھی بڑے زبردست جوابات آتے ہیں ۔اور اب میں یہ حکمت سمجھ گیا ہوں کہ قدرت ننھے بچوں کو قوت گویائی کیوں نہیں دیتی،کیوں قدرت ان کے تھوڑا بڑے ہونے اور اتنا بڑے ہونے کا انتظار کرتی ہے کہ وہ بھاگ دوڑ سکیں۔سوچئیے اگر ننھے بچے اپنی اماں کو ہر بات پر تڑاخ تڑاخ جواب دینا شروع کر دیں ۔جب وہ مزاحیہ سی شکلیں بنا کر بچے کو خوامخواہ ہنسانے کی کوشش کر رہی ہوتیں ہیں ، اور ان سے کہیں کہ اماں امن کر اور اپنی عمر دیکھ ، یہ حرکتیں اچھی لگتی ہیں۔یقینا یہ سب سن کر ماں اداس ہوتی،غصے میں آتی اور سوچتی کہ میں اسے اتنا پیار کرتی ہوں اور یہ مجھے کیسی کیسی باتیں کہہ جاتا ہے۔
رات میرے لیے جاگنے ، کھیلنے اور غور وفکر کرنے کا وقت ہوتا ہے میں نے سنا ہے کہ یہ صرف میرا ہی نہیں ،ہر باشعور اور سوچنے سمجھنے والے دانشور کا یہی خیال ہے ۔پر میری اماں کو پتہ نہیں کیوں رات کو نیند آنا شروع ہو جاتی ہے۔میں حیران ہوتا ہوں جب وہ رات کے پرسکون وقت اور ماحول میں جاگنے سے گریز کرتی ہیں ۔میں باتیں کرنا چاہتا ہوں وہ نگاہیں ادھر اودھر کر کے سونا یااونگھنا چاہتی ہیں۔پھر اس وقت تو میں حیران کی بجائے تھوڑا پریشان سا ہو جاتا ہوں جب مجھ سے ننھی سی بچی بن کر توتلی زبان میں باتیں کرتی ہیں ۔او بھئی۔۔ ہیلو ۔۔۔میرے ساتھ جوانوں والی گفتگو کریں۔میں سوچتا ہوں کہ کتنا اچھا ہوتا اگر یہ اب تک سمجھدار ہو چکی ہوتیں؟ پر کوئی بات نہیں ،یہ کام بھی مجھے ہی کرنا پڑے گا۔میں بڑا ہو کر یہ کام بھی ضرور کروں گا۔
ماں مجھ سے پیار تو بہت کرتی ہیں، بار بار یقین بھی دلاتی رہتی ہیں ، پر تھوڑی سی عقلمند بھی ہوتیں تو کیا ہی بات تھی۔اب سنتا ہوں کہ بہت بڑی افسر ہیں ،میں نے رویے سے بھی اندازہ لگایا ہے ،لیکن حیرت ہے ، اتنا بھی نہیں سمجھتیں کہ بچوں کی بھی کوئی پرائیویسی ہوتی ہے ۔اب آپ ہی بتائے ،گہری نیند کے مزے لینے والے کسی مرد کی تصویر فیس بک پر شیئر کرنا مناسب بات ہے؟ بھئی آپ پیار ضرور کریں، لوریاں بھی سنائیں ۔حالانکہ میں نے کچھ کچھ اندازہ لگا لیا ہے کہ لوریوں کے علاؤہ بھی گیت ہوتے ہیں۔ابھی کل کی سنیئے ،میرے چند کپڑے دھوئے ،
وہ تو بھلا ہو موبائل فون کا۔ ،جسے میں نے چپکے سے دیکھنا سیکھ لیا ہے۔خیر یہ بھی اماں ہی سے سیکھا ہے کہ وہ کس طرح باتوں میں لگا کر ابا جان کا موبائل پوری طرح سے چیک بھی کر لیتی ہیں ۔پہلے میں نے مشاہدہ کیا ،پھر سیکھ لیا اب جب اماں ذرا مصروف ہوتیں ہیں تو میں بھی ان کا فون چیک کر لیتا ہوں۔مزے کی بات بتاؤں کہ جس طرح اماں کے ہاتھ کا انگوٹھا فون کھول لیتا ہے ،میں نے تجربہ کیا تو کھلا کہ میرے پیر کے انگوٹھے سے بھی فون کھل جاتا ہے ۔میں ان کی تحریریں تو ابھی نہیں پڑھ سکتا، پر ماں جو کچھ بھی سوچ رہی ہوتی ہیں ، میں وہ سب سن رہا ہوتا ہوں ۔میرا اپنی ماں سے کنکشن ہی کچھ ایسا ہے ۔مجھ پتہ چل چکا ہے کہ وہ مجھ سے بہت پیار کرتی ہیں۔کل کھڑکی کے پاس بیٹھی ایک چڑیا گیت گاتے گاتے میرے ساتھ باتیں کرنے لگی۔اس چڑیا نے مجھے بتایا کہ تمہاری اماں بہت ہی اچھی اور پیار کرنے والی ہے ، لیکن ساری مائیں ہی اپنے بچوں سے بہت پیار کرتی ہیں ۔اس چڑیا نے بتایا کہ اپنے ننھے بچوں سے بے تحاشا پیار کرنا دنیا کی ہر ماں لازم خیال کرتی ہے۔اہم بات یہ ہے کہ ان کے پیار سے لطف اٹھایا جائے ، بھلے وہ تمہاری نیند والی تصویر بھی پوسٹ کردیں تو اسے اپنی پرائیویسی کے حق کے خلاف نہ سمجھا کرو ۔ چڑیا نے بتایا کہ اگر اس کے پاس بھی موبائل فون ہو ، تو وہ بھی فیس بک پر اپنے ننھے بچوں کی تصویریں لگانا پسند کرے گی ۔میں نے چڑیا کی باتیں سنیں ضرور ہیں،لیکن تنہائی میں ابا سے پوچھوں گا ۔وہ بڑے عقلمند ہیں ۔بہت کم بولتے ہیں ،پر ان کی خاموشی میں بھی اتنی باتیں ہوتی ہیں کہ کیا بتاؤں.
ایک روز میں نے آنکھوں آنکھوں میں ابا کو بتایا کہ اماں ہے تو بہت ہی اچھی ،پر تھوڑا تنگ بھی کرتیں ہیں۔ابا یہ سن کر مسکرائے۔انہوں نے مجھے یوں دیکھا جیسے میری جرات اور بہادری کی تعریف کر رہے ہوں۔ہم دونوں آنکھوں آنکھوں میں باتیں کرتے رہتے ہیں ۔پر اس روز ابا نے کمال کر دیا انہوں نے اماں سے صاف صاف کہہ دیا کہ ہمارے جگنو میر سارنگ گرمانی کو تنگ نہ کیا جائے، ویسے بھی مردوں کو چھیڑنا اچھی بات نہیں۔
یہ اوراق اور احوال پڑھ کر میرے منہ سے بے ساختہ نکلا کہ ارے بھئی ایسے کہاں ہوتا ہے ۔ آواز آئی کہ کیوں نہیں ہو سکتا، اس دنیا میں ایسا کیا ہے جو نہیں ہو سکتا۔تم دیکھنا یہ ننھا دانشور بہت بڑا آدمی بنے گا، تم دیکھنا کہ جگنو میر سارنگ گرمانی ایک شاعر بنے گا، ناول لکھے گا اور ہمیشہ سچ بولے گا ۔
جگنو میر سارنگ گرمانی کی غیر مطبوعہ ڈائری ، چند اوراق
May 26, 2022