مساجد مسلمانوں کے لیے سب سے اہم مقام رکھتی ہے کیونکہ مسجد نہ صرف اجتماعی عبادت کی جگہ ہے بلکہ یہ اللہ کا گھر ہے۔ اس مخصوص مقام کی وجہ سے مسلمان جو دنیا میں کہیں بھی ہیں مساجد کا بہت احترام کرتے ہیں لیکن ہندوستان میں مسلم دشمنی آخری حد چھو رہی ہے۔ جہاں مسلمانوں کے جذبات کو پامال کیا جا رہا ہے اور اور ساتھ ساتھ مساجد کی بھی تقدس کو بھی پامال کیا جارہا اور مساجد کے تقدس کو روندھا جا رہا ہے۔
اس سلسلے میں گیانواپی مسجد میں تنازع بھارت کے مسلم تنگ نظری اور سیکیولرزم کے لبادے میں چھپے انتہا پسندی کو بے نقاب کر رہا ہے۔ شمالی اتر پردیش کی ریاست ایودھیا میں ہندو فاشسٹ ہجوم کی جانب سے ایک تاریخی مسجد کو مسمار کرنے کے تین دہائیوں بعد، فرقہ وارانہ تشدد کی ایک لہر شروع ہوئی جس میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے، اور ہندو تنظیمیں دیگر مسلم مقامات پر نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ہندو گروپوں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے انتخابی حلقے میں واقع یہ مسجد 17ویں صدی میں مسلم حکمرانوں کی جانب سے اس مقام پر ایک مندر کو منہدم کرنے کے بعد بنائی گئی تھی۔ انتہا پسند میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سروے میں اس جگہ پر ایک شیو لنگ، ایک پتھر کی جو ہندو دیوتا شیو کی نمائندگی کرتا ہے، دریافت ہوا ہے، اس دعوے کو مسجد کے حکام نے مسترد کر دیا ہے۔مسجد انتظامی کمیٹی کے جوائنٹ سکریٹری سید محمد یاسین نے پیر، 23 مئی کو کہا کہ گیانواپی مسجد کمپلیکس میں جس چیز کے بارے میں شیولنگ ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے وہ دراصل ایک چشمہ ہے اور اسے موقع ملا تو ایک ہی ثابت کرو.آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (اے آئی ایم پی ایل بی) نے سروے کی رپورٹ پر عدالت کی جانب سے مسجد کے وضو خانہ کو سیل کرنے کے حکم کو مسلمانوں کے ساتھ سنگین ناانصافی قرار دیا ہے۔بورڈ نے پیر کو جاری اپنے بیان میں
کہا ’’گیانواپی مسجد سے متعلق موجودہ صورت حال مسلمانوں کے لیے پوری طرح سے ناقابل قبول ہے اور گیانواپی مسجد ایک مسجد تھی اور آخر تک مسجد رہے گی۔‘‘ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’گیانواپی ہے اور مسجد ہی رہے گی، اسے مندر بنانے کی کوشش فرقہ وارنہ نفرت پیدا کرنے کی سازش سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ یہ تاریخی حقائق اور قانون کے خلاف ہے۔‘‘
انھوں نے کہا ’’1937 میں دین محمد بنام سیکرٹری آف اسٹیٹ کے معاملے میں عدالت نے زبانی گواہی اور دستاویزات کی روشنی میں یہ طے کیا کہ پورا کمپلیکس ایک مسلم وقف کی ملکیت ہے اور مسلمانوں کو یہاں نماز پڑھنے کا حق ہے۔ عدالت نے یہ بھی طے کیا تھا کہ متنازعہ زمین میں سے کتنی مسجد کی ہے اور کتنی مندر کی۔ اسی وقت وضو خانہ کو مسجد کی ملکیت کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا، پھر 1991ء میں عبادت گاہوں سے متعلق قانون کو پارلیمنٹ نے پاس کیا تھا، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ 1947 میں مذہبی مقامات جس حالت میں تھے انھیں اسی حالت میں برقرار رکھا جائے گا۔اس کے بعد عدالت نے مسجد میں مسلمانوں کے بڑے اجتماعات پر پابندی عائد کر دی، لیکن بعد میں بھارتی سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔ فن تعمیر اور سٹی اسٹڈیز کے ایک محقق فہد زبیری نے کہا، "مذہبی مقامات کے بارے میں اس طرح کی تحقیقات کر کے، عدالتوں نے، جیسا کہ انہوں نے بابری مسجد کیس میں کیا تھا، ایک مخالف جدید سیاست کی اقدار کو قانونی حیثیت دی ہے۔"بہت سے مسلمان تازہ ترین اقدام کو ہندوؤں کی طرف سے ان کے آزادانہ عبادت اور مذہبی اظہار کے حقوق کو مجروح کرنے کی ایک اور کوشش کے طور پر دیکھتے ہیں۔ انہیں یہ بھی خدشہ ہے کہ عبادت گاہ بابری مسجد کی طرح جائے گی- ایودھیا میں 16ویں صدی کی ایک مسجد جسے 1992 میں ہندو ہجوم نے منہدم کر دیا تھا جن کا ماننا تھا کہ یہ ایک اور ہندو دیوتا رام کی جائے پیدائش پر بنائی گئی تھی۔اس واقعہ کے بعد بھارت بھر میں
مذہبی فسادات ہوئے تھے اور 2ہزار افراد جان سے گئے تھے جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔
مودی کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے 1992 میں مہم شروع کی تھی جس کا مقصد رام مندر کی تعمیر تھا جو ان کے بقول بابری مسجد کی شہادت سے قبل شروع کی گئی تھی۔
بعد ازاں جب نریندر مودی 2002 میں گجرات کے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے تو ایودھیہ سے آنے والی ریل میں ا?گ لگنے کے باعث 59 ہندو ہلاک ہوئے تھے جس کے بعد فسادات میں ایک ہزار سے زائد افراد کو بے دردی سے مارا گیا تھا جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ہندو قوم پرست دیگر مسلمانوں کی عبادت گاہوں پر بھی نظریں جمائے ہوئے ہیں، جیسے متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد۔ یہ مغل شہنشاہ اورنگزیب کے دور میں تعمیر کیا گیا تھا جب اس نے شہر پر حملہ کیا اور 1670 میں اس کے مندروں کو تباہ کر دیا۔ یہ مسجد بعد میں بنائے گئے مندر کے ساتھ ہے جسے ہندو دیوتا کرشنا کی جائے پیدائش سمجھا جاتا ہے۔اسی طرح کی متعدد درخواستوں میں سے گزشتہ دنوں ایک عدالت نے مسجد کو ہٹانے کا مطالبہ کرنے والے ایک مقدمے کی سماعت کرنے پر اتفاق کیا۔ ہندوستان نے 1991 میں عبادت گاہوں کے قانون کے نام سے ایک قانون پاس کیا جو کسی بھی عبادت گاہ کو تبدیل کرنے سے منع کرتا ہے اور اس کے مذہبی کردار کی ضمانت دیتا ہے جیسا کہ یہ ہندوستان کے یوم آزادی 15 اگست 1947 کو موجود تھا۔ بابری مسجد تنازعہ پر اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ 1991 کا قانون اسی طرح کے دیگر تمام معاملات میں لاگو ہونا چاہیے۔بھارت ظلم کے ایسے راستے پر چل رہا ہے جہاں انصاف کے منبع عدالتوں کو ہی مسلمانوں کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ وہ کس سے داد رسی حاصل کریں۔ کوئی نہیں جو ان کی مددگار ہو۔ بڑا المیہ ہے کے ہندوستان کے 200 ملین مسلمان آج اپنی مساجد کی حفاظت کرنے کے قابل نہیں ۔ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والا سلوک دنیا بھر میں دیکھا جا رہا ہے۔ لیکن خاموشی ہر طرف ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت نہیں جو بھارتی ظلم کو روک سکے ؟
گیانواپی مسجد : بھارتی حکومت کی تنگ نظری
May 26, 2022