خونیں مارچ کو روکنے کا دانشمندانہ فیصلہ 

      حیرت ہے پورے ملک کوانتشار کی آگ لگانے پر تیار ہوگئے ہیں وہی سابق وزیر اعظم عمران خان جو ملکی ترقی اور عوامی خوشحالی کی کل تک باتیں کرتے رہے ہیں ،کہاں گیا اُن کا حب الوطنی کا جذبہ کہاں گئی اُن کی حب الوطنی اورکہاں گیا اُن کی ولولہ انگیز باتیں جو وہ کل تک غریب عوام کی تقدیر بدلنے کیلئے کر تے رہے ہیں ۔اقتدار کیا گیا حب الوطنی بھی گئی عوامی وعدے وعید بھی گئے۔ خاک ہو گیا سب ،ملیا میٹ کر دیا سب کچھ جو وہ کل تک کرتے رہے ۔سابق وزیر اعظم کی باتیں اور کام دیکھ کر تو یوں لگتا ہے جیسے آج سے چوہتر برس پہلے شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال اور بانی پاکستان محمد علی جناح نے شبانہ روز محنت کر کہ اور تقسیم پاکستان کے وقت لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کہ پاکستان اسلئے بنایا تھا کہ آگے چل کر ایک وقت ایسا آئے کہ جب اُن کی قربانیوں کا ثمر صرف اور صرف عمران خان نامی شخص حاصل کرے اور وہی پاکستان کی حکومت چلائے اوریہ بھی کہ دوسرے کسی شخص کا پاکستان پر کوئی حق جتلائے اور نہ ہی کسی کو اس حق کا اختیار حاصل ہے ۔بھئی حد ہو گئی ،اس صورتحال کو اب زہنی عقل و فہم سے عاری نہ کہا جائے تو پھر کیا کہا جائے ۔پی ٹی آئی کے سربراہ سابق وزیر اعظم کہلانے والے عمرا ن خان کو کچھ تو عقل کا مظاہرہ کرنا چاہیے کہ وہ کر کیا رہے ہیں ،وہ تو کسی کے کہنے میں اور نہ ہی سننے میں دکھائی دے رہے ہیں ۔حکومت ،عدالتوں کیا ملک کی مسلح افواج کو بھی ایسے مخاطب کرتے ہیںجیسے یہ حکومت ،عدالتیں فوج سب اُن ہی کی ہیں اور یہی اِن سب کے سربراہ ہے ۔ کچھ تو بات کرنے کا سلیقہ طریقہ ہونا چاہیے۔جب بھی بولیں گے بے سرُا بے تکا ہی بولیں گے، حیرت ہے کہ چلئے سیاستدان ،عدلیہ عوام سب کو چھوڑدیتے ہیں مقتدر وں کی ہی بات کر لیتے ہیں سیاست کے نام پر اپنی مرضی کرنے والا نام نہاد سیاستدان جسے کم ازکم ہمارا دل تو کبھی کرتا ہی نہیں انہیں سیاستدان کہنے کو ان کی اُن اپنے سیاسی چال چلن کی وجہ سے کہ دیکھو اُس مقتدر ادارے کو کتنی فرعونیت سے کہہ رہے ہیں کہ نیوٹرل ہو تو اب نیوٹرل ہی رہو،اور یہ ایسے کہہ رہا ہے جیسے یہ مقتدر ادارہ اس کی طرف سے جاری کی گئی اس کی ذاتی تنخواہوں سے چلتا ہے اور یہ جو کہے گا ادارہ اس کی تعمیل کرے گا ۔یہ مخبوط الحواس پاگل پنے کی زندہ مثال ہے کہ سابق وزیر اعظم وہ دن بھول گئے جب انہی’’ نیوٹرلز ‘‘کے بوٹ پالش کر کر کہ اور اُن کی منتیں سماجتیں کر کر کہ و زار ت عظمیٰ تک پہنچے اور بجائے اِن کا احسان مند ہونے کے انہی کے ’’پر َ  ‘‘ کاٹنے کی ناکام کوشیشیں کر بھی ڈالیں ۔ احسان فراموشی کی حد ملاحظہ ہوکہ جن بٹروں نے انہیں انگلی پکڑا کر چلنا سکھایا انہی کو تڑیاں لگانے لگے ہیں اور یہی وہ قابل افسوس صورتحال ہے جسے دیکھتے ہوئے ہمیں یہ کہاوت یا مثال جو بھی کہیں اب بہ کثرت یاد آنے لگی ہیء جو ہم یہاں قارئین کی دلچسپی کیلئے ان کے سامنے کئے دیتے ہیں ۔ سردیوں کا موسم تھاایک باز فضاء میں اڑتے اڑتے دریا کے اوپر چکر لگانے لگا تو اس نے نیچے دیکھا کہ دریا کنارے ایک شیر سردی سے ٹھٹھر رہا تھا وہ کلابازی لگا کہ شیر کی کمر پر جا بیٹھا اور اسے حدت پہنچانے لگا جب شیر کی طبیعت بحال ہوئی تو ا س نے باز کو اپنی کمر پر ہی بیٹھنے رہنے کا کہا اور پورے جنگل کی اپنی پیٹھ پر با ز کو سیر کروائی اور اسے آئندہ کے حوال سے کچھ نصیحت بھی کی ۔کچھ دنوں بعد باز پھر اسی دریا پر سے پرواز کرتا ہوا گذرا تو اسنے نیچے دیکھا تو ایک چوہا دریا کنارے سردی سے ٹھٹھر رہا تھا باز نے کلابازی لگائی اور اس کی کمر پر بھی بیٹھ کر اسے بھی حدت پہنچانے لگا۔ کافی دیر بیٹھنے کے بعد جب باز  نے اُڑنا چاہا تواسے دشواری محسوس ہوئی ،جب اپنے پرَ وں پر اس کی نظر پڑ ی تو یہ دیکھ کر وہ سخت حیران پریشان ہوا کہ چوہے نے اس کے پرَ کتر کتر کر آدھے سے زیادہ ختم کر دئے تھے ۔اتنے میں شیر کا وہیں سے اچانک گذر ہوا تو وہ یہ سب دیکھ کر باز سے کہنے لگا کہ میں نے تمہیں کہا تھا کہ نیکی کرنا مگر اصیل سے کرنا ۔یہ تم کس سے نیکی کر بیٹھے ۔تو دیکھا جائے تو سابق وزیر اعظم اور مقتدر حلقوں کے مابین جو کچھ ہوا وہ بھی ایک نیکی تھی مگر اس نیکی کے صلے میں دیا کیا جانے لگا تھا اس کی حقیقت وہی 9 اپریل کی رات جانتی ہے جس میں نیکی او ربد ی دونوں آپس میں ٹکرائے اور اب لانگ مارچ کے بہانے جس خونی مارچ کی باتیں ہورہی ہیں یہ اُسی نیکی کا صلہ ہے اب اس سے زیادہ او ر مزید کیا کہا جاسکتا ہے ۔جب خود غرضی اور مطلب پرستی آخری حدوں کو دچھونے لگے اور اپنے انتہا ئی طاقتور محسنوں کو آنکھیں دکھائی دی جانے لگیں تو غریب عوام جنہیں ایک کروڑ نوکریاں اور دس لاکھ گھروں کے علاوہ دیگر کئی سبز با غ دکھائے گئے تھے کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے باقی اس فرعون صفت سابق حکمران کے آگے ۔ظاہری سی بات ہے نوجوان نسل اس کے بہکاوے میں آئے گی ۔وہ شدید گرمی دیکھے گی نہ بھوک پیاس ،جیل کی سختیوں سے گھبرائے گی نہ ڈنڈے کھانے سے چوکے گی اور ستم بالائے ستم یہ کہ یہ سب کچھ کرنے کے بعد اسے حاصل کیا ہو گا ،سوچنے والی بات یہ ہے ۔لیجئے ہم ہی بتائے دیتے ہیں اپنی نوجوانوں کو کہ فائدہ نوجوانو ں کو نہیں ایکبار پھر انہیں ہی یعنی عمران خان کو ہی ہوگا جوایکبار پھر انہی کو بھول کر اِن ہی پر پیٹرول بم گرانے کی نیت رکھتا ہے تاہم دوسری طرف عمران خان ہی کی طرف سے لانگ مارچ  کو خونی مارچ قرار دئیے جانے کے بعد دیکھا جائے تو وفاقی حکومت نے اِس کے خونی لانگ مارچ کی اجازت نہ دینے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ  حکومتی تدبر اور عقل و فہم کا عکاس ہے جس سے عوام کے جان و مال کے تحفظ کی حکومتی زمہ داریوں کو پورا کرنے کا دانشمندانہ طرز عمل سامنے آتا ہے جسے ہر پر امن شہری سرا ہ رہا ہے۔

ای پیپر دی نیشن