مکتوب نگاری اردو ادب کی اہم صنف

مکتوب نگاری اردو ادب کی ایک اہم صنف ہے ۔ مرزا غالب نے جب اپنی مکتوب نگاری کے حوالے سے فرمایا تھاکہ "میں نے مراسلے کو مکالمہ بنا دیا"  تو دراصل انہوں نے مکتوب نگاری کی سماجی اہمیت کو اجاگر کیا تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی ـ"غبار خاطر"  مکتوب نگاری کی سماجی اہمیت کو اجاگر کیا گیا تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی "غبار خاطر" مکتوب نگاری کی روایت میں ایک نیا سنگِ میل ہے تب سے اب تک ہزاروں مجموعہ ہائے مکاتیب شائع ہو چکے ہیں۔دوست محمد خان المعروف راشد علیزئی کی سعی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔ جو ان کے بڑے بھائی مولانا صالح محمد خان نے اس کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے۔                                                            
خطوط نہ صرف شخصیت کے ائینہ دارہوتے ہیں بلکہ جذبات، واقعات اور حالات کی ترسیل کا ذریعہ بھی ہوتے ہیں۔ خطوط کی کئی اقسام ہیں۔ جیسے نجی خطوط، کاروباری خطوط، سرکاری خطوط، رسمی خطوط، عمومی خطوط اور ڈیجیٹل خطوط وغیرہ۔ خطوط نگاری ادب کی قدیم ترین صنف ہے۔ اہلِ ادب نے جب اس کو اپنے اظہار کے لیے اپنا یا تو اس کی ادبی اور تاریخی حیثیت میں مزید اضافہ ہوا۔ اردومکتوب نگاری میں بہت سی نامی گرامی شخصیات نے اہم کردار ادا کیا جن میں سر سید احمد خان کے خطوط کا مجموعہـــ" ـمکاتیب سرسید"، علامہ شبلی نعمانی کے مکاتیب "مکاتیب شبلی"، مرزا غالب کے خطوط "عودہندی"، "اردو معلی"،مکاتیبِ غالبـ"، ابوالکلام آزاد کے خطوط"مکاتیب ابوالکلام آزاد"، مولانا حالی کے خطوط مکا تیب حالی اورمکتوبات اقبال وغیرہ اپنی ایک الگ شناخت اور اہمیت رکھتے ہیں۔                                                
ڈاکٹر سفیر اختر کے خواجہ محمد خان اسد حضروی کے نام مکاتیب میں نجی خطوط، رسمی خطوط اور عمومی خطوط والی
 خصوصیات کے ساتھ ساتھ ادبی رنگ اور روداد کا اندازاسد حضروی کے نام ڈاکٹر سفیر اختر کے مکاتیب اسد اکیڈمی میرا کتب خانہ کی ایک بہترین کاوش ہے جس کو برادر مکرم راشد علیزئی نے اپنی حیات مبارکہ کے سن 2020میں ترتیب و تدوین کی مگر زندگی مستعار نے کتاب کے چھپنے کی مہلت فراہم نہ کی۔ برادر مکرم راشد علیزئی کتاب کے چھپنے سے پہلے ہی 58سال کی عمر میں اچانک حرکت قلب بند ہونے سے وفات پا گئے موت ایک اٹل حقیت ہے اورمشیتِ ایزدی کے سامنے ہر ایک کو سرِ تسلیم خم کرنا پڑتا ہے۔ اس کتاب کو راشد علیزئی کی وفات کے بعد ان کے بڑے بھائی مولانا صالح محمد خان نے ان کی دوسری برسی کے موقع پرچھپواکر شائع کروایا ہے۔                                      
راشد علیزئی نے اپنی حیات ہی میں اسد اکیڈمی میرا کتب خانہ سے (i) خواجہ محمد خان اسد کے احوال و اثار( ii) شیخ الحدیث حضرت مولانا نصیرالدین صاحب غورغشتی والے جس کو انہوں نے پٹھانوں کے شاہ والی اللہ کا نام دیا (iii) شیخ الحدیث حضرت مولاناعبدالسلام صاحب حضرو والے  (iv)  قاضی انوارالحق مرحوم کے اوراق انوار کے نام سے مرتب کی (v)نوجوان شاعر، ادیب توقیر علیزئی پر ایک کتاب شائع کی ۔راشد علیزئی کی کچھ غیر مطبوعہ کتابیں بھی ہیں جن کا مسودہ تیار ہے ان کے بڑے بھائی مولانا صالح محمد خان کہہ رہے ہیں کہ جلد ہی وہ غیر مطبوعہ کتب بھی چھپوا کر شائع کروائیں گے۔اللہ تعالیٰ مولانا صالح محمد خان کو صحت و تندرستی والی زندگی عطافرمائے اورانہیں اپنے ارادوں میں کامیابیاں عنائیت فرمائے (امین)۔                                                  
 خواجہ محمد خان اسد حضروی کے نام ڈاکٹر سفیر اختر کے خطوط کے عنوان سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ خطوط یکطرفہ ہیں یعنی جو خطوط  ڈاکٹر سفیر اختر صاحب نے خواجہ محمد خان اسد حضروی کے نام تحریر کئے ہیں۔
 وہ خطوط راشد علیزئی نے اپنی محنت، لگن اور شوق سے اکٹھے کر کے ان کو ترتیب و تدوین کے ساتھ ان کے حواشی بھی تحریرکئے ہیں جو یقینا ایک بہت بڑی ادبی و تحقیقی کاوش ہے۔ ان خطوط میں کچھ خطوط ادبی اورکچھ نجی نوعیت کے ہیں جو بڑے معلوماتی خطوط ہیں۔ 

ا ن خطوط میں مختصر اور طویل خطوط شامل ہیں ۔ تمام خطوط میں مختلف انداز میںکتابوں کا ذکر ضرور ملتا ہے۔ سفیر اختر کا واہ کینٹ سے ایک انتہائی مختصر خط ۲ جولائی ۳۷۹۱ ملاحظہ ہو۔
 ـ"مکرمی!
 السلام علیکم و رحمتہ اللہ!
 آج کل کیا مصروفیات ہیں، اور طویل خاموشی کا سبب کیا ہے؟ جواب کا انتظار رہے گا۔
 اللہ کرے آپ بخیروعافیت ہوں۔ والسلام"
 مکتوب نگار نے خط میں کسی جگہ شعر کا حوالہ دیا ہے یا کوئی چھوٹی موٹی غلطی سرزدہوئی ہے تو راشد علیزئی نے اس کی حواشی میں درستگی کی ہے۔ مثال کے طور پر مکتوب نگارایک جگہ ایک شعر لکھتے ہیں 
ارادے باندھتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہوجائے، کہیں ایسا نہ ہو جائے
راشد علیزئی نے حواشی میں قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کے اس شعر کی درستگی فرمائی ہے
 ارادے باندھتا ہوںسوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہوجائے، کہیں ویسا نہ ہو جائے
 برادرِ مکرم مولانا صالح محمد خان کی یہ کاوش یقینا قابلِ ستائش ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس کاوش کو قبول و منظور فرمائے۔ یقینا ان کی اس کاوش سے راشد علیزئی کی روح کو تسکین پہنچی ہو گی۔میری دلی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ راشد علیزئی کی مزید جتنی بھی غیر مطبوعہ کتب ہیں برادرِ مکرم مولانا صالح محمد خان کوان کو چھاپنے  اور شائع کرنے کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے۔ امین۔

ای پیپر دی نیشن