اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ میں پنجاب انتخابات کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمشن کی نظرثانی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ کب تک انتخابات آگے کر کے جمہوریت قربان کرتے رہیں گے؟۔ تاریخ میں کئی مرتبہ جمہوریت قربان کی گئی، جب بھی جمہوریت کی قربانی دی گئی کئی سال نتائج بھگتے۔ عوام کو اپنی رائے کے اظہار کا موقع ملنا چاہیے۔ آئینی طور پر کیسے ممکن ہے کہ منتخب حکومت چھ ماہ اور نگران حکومت ساڑھے چار سال رہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ہے کہ نگران حکومت کی مدت میں توسیع آئین کی روح کے منافی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تیسرا دن ہے وکیل الیکشن کمشن کے دلائل سن رہے ہیں، ہمیں بتایا جائے کہ آپ کا اصل نکتہ کیا ہے۔ وکیل الیکشن کمشن سجیل سواتی نے کہا کہ سپریم کورٹ رولز آئینی اختیارات کو کم نہیں کر سکتے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ رولز عدالتی آئینی اختیارات کو کیسے کم کرتے ہیں۔ اب تک کے نکات نوٹ کر چکے ہیں، آپ آگے بڑھیں۔ وکیل الیکشن کمشن نے کہا کہ فل کورٹ کئی مقدمات میں قرار دے چکی ہے کہ نظرثانی کا دائرہ کار محدود نہیں ہوتا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ کی منطق مان لیں تو سپریم کورٹ رولز کالعدم ہو جائیں گے۔ وکیل سجیل سواتی نے کہا کہ نظرثانی درخواست دراصل مرکزی کیس کا ہی تسلسل ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہوا میں تیر چلاتے رہیں گے، تو ہم آسمان کی طرف ہی دیکھتے رہیں گے، کم از کم ٹارگٹ کر کے فائرکریں، پتا تو چلے کہنا کیا چاہتے ہیں۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے نظرثانی کا دائرہ کار مرکزی کیس سے زیادہ بڑا کر دیا ہے۔ وکیل الیکشن کمشن نے کہا کہ انتخابات کیلئے نگران حکومت کا ہونا ضروری ہے۔ نگران حکومت کی تعیناتی کا طریقہ کار آئین میں دیا گیا ہے، نگران حکمرانوں کے اہلخانہ الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے، آئین میں انتخابات کی شفافیت کے پیش نظر یہ پابندی لگائی گئی۔ جسٹس اعجاز الاحسن بولے کہ صوبائی اسمبلی 6 ماہ میں تحلیل ہوجائے تو کیا ہوگا، کیا ساڑھے 4 سال تک نگران حکومت کام کرتی رہے گی۔ ساڑھے 4 سال قومی اسمبلی کی تحلیل کا انتظار کیا جائے گا۔ چیف جسٹس نے کہا شفاف انتحابات کرانا الیکشن کمشن کی ذمہ داری ہے، الیکشن کمشن فنڈز اور سکیورٹی کی عدم فراہمی کا بہانہ نہیں کرسکتے، کیا الیکشن کمیشن بااختیار نہیں ہے۔ وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ اپنے آئینی اختیارات سے نظر نہیں چرا سکتے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ آپ بتائیں 90دن کی نگران حکومت ساڑھے چار سال کیسے رہ سکتی ہے، آئین پر اس کی روح کے مطابق عمل کرنا ہوتا ہے۔ عدالت نے کہا بطور آئین کے محافظ عدالت کب تک خاموش رہے گی۔ آرٹیکل 224 کو سرد خانے میں کتنا عرصہ تک رکھ سکتے ہیں۔ وکیل الیکشن کمشن نے کہا کہ 9 مئی کے واقعات سے الیکشن کمیشن کے خدشات درست ثابت ہوئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے خدشات کی نہیں آئین کے اصولوں کی بات کرنی ہے۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ عام انتخابات کا مطلب صرف قومی اسمبلی کا الیکشن نہیں ہوتا، ایک ساتھ انتخابات میں پانچ جنرل الیکشن ہوتے ہیں، وزیر اعظم اور وزاءاعلیٰ 6 ماہ بعد اسمبلیاں تحلیل کر دیں تو کمشن کیا کرے گا۔ جسٹس منیب اختر نے مزید کہا کہ وزیر اعظم اور وزاء اعلی کے پاس اسمبلی تحلیل کرنے کی ویٹو پاور ہے۔ وزیر اعظم اور وزیر اعلی جب چاہیں اسمبلیاں تحلیل کر سکتے ہیں، آئین کے اصولوں کو مدنظر رکھ کر بتائیں الیکشن کمشن کا مو¿قف کیا ہے، نگران حکومت اس لئے آتی ہے کہ کسی جماعت کو سرکاری سپورٹ نہ ملے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا نگران حکومت جب تک چاہے رہ سکتی ہے۔ وکیل الیکشن کمشن نے جواب دیا کہ نگران حکومت کی مدت کا تعین حالات کے مطابق ہو گا۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمشن نے انتخابات سے معذوری ظاہر نہیں کی۔ سپریم کورٹ کو بھی کہا کہ وسائل درکار ہیں، اب الیکشن کمشن کہتا ہے انتخابات ممکن نہیں ہیں، پہلے کیوں نہیں کہا کہ وسائل ملنے پر بھی انتخابات ممکن نہیں۔ وکیل الیکشن کمشن نے کہا کہ اپنے تحریری مو¿قف میں بھی یہ نقطہ اٹھایا تھا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمشن نے صدر اور گورنر کو بھی حقائق سے آگاہ نہیں کیا، 2 دن تک آپ مقدمہ دوبارہ سننے پر دلائل دیتے رہے، ایک دن انتخابات سے آئین کی کون سی شق غیر مو¿ثر ہوگی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ لیڈر آف ہاو¿س کو اسمبلی تحلیل کرنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے، نظام مضبوط ہو تو شاید تمام انتخابات الگ الگ ممکن ہوں، فی الحال تو اندھیرے میں ہی سفر کر رہے ہیں جس کی کوئی منزل نظر نہیں آ رہی۔ وکیل الیکشن کمشن نے کہا کہ سیاسی ماحول کو دیکھ کر ہی 8 اکتوبر کی تاریح دی تھی، 9 مئی کو جو ہوا اس خدشے کا اظہار کر چکے تھے۔ جسٹس منیب اختر نے وکیل الیکشن کمشن کو نو مئی پر بات کرنے سے روک دیا اور ریمارکس دیئے کہ ایسے نہیں ہوسکتا جو آپ کو سوٹ کرے وہ مو¿قف اپنا لیں، کبھی الیکشن کی کوئی تاریخ دیتے ہیں کبھی کوئی، پھر کہتے ہیں الیکشن ممکن ہی نہیں، ہر موڑ پر الیکشن کمشن نیا مو¿قف اپنا لیتا ہے، آپ ماضی کے عدالتی فیصلوں کا حوالہ دے رہے ہیں، آج کے حالات میں فرق ہے۔ وکیل الیکشن کمشن نے جواب دیا کہ موجودہ حالات میں انتحابات ممکن نہیں۔ جسٹس منیب نے ریمارکس دیئے کہ آپ پھر آئینی اصولوں سے موجودہ حالات پر آگئے ہیں، آپ جواب دیں کہ کیا پانچوں اسمبلیوں کے الگ الگ انتخابات ہوسکتے ہیں۔ وکیل نے جواب دیا کہ نگران حکومتیں ہوں تو الگ الگ انتحابات ممکن ہیں، موجودہ حالات میں الگ الگ انتحابات ممکن نہیں، الیکشن کمشن تمام سرکاری مشینری حکومت سے لیتا ہے، نیوٹرل انتظامیہ نہیں ہوگی تو شفاف انتحانات کیسے ہوں گے۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آپ قومی اسمبلی کا انتخاب متاثر ہونے کی بات کر رہے ہیں، ارکان قومی اسمبلی صوبائی انتخابات پر بھی اثر انداز ہو سکتے ہیں، جس آئینی اصول کی بات آپ کرر ہے ہیں اس کے مطابق تو اسمبلی تحلیل ہی نہیں ہونی چاہئے، اگر قومی اسمبلی پہلے تحلیل ہو جائے تو کیا صوبائی اسمبلی کو الیکشن کمیشن تحلیل کر سکتا ہے، الیکشن کمشن کی منطق مان لیں تو ملک میں منتخب وفاقی حکومت نہیں ہو گی۔ وکیل الیکشن کمشن نے مو¿قف پیش کیا کہ ایسی صورت حال میں آرٹیکل 224 حل دیتا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 224 ہر اسمبلی کے لیے ہے صرف وفاق کے لیے نہیں۔ جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ پنجاب میں 20 ضمنی انتخاب ہوئے جو مکمل شفاف تھے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ وزیر اعلی پنجاب اور اپوزیشن لیڈر کے اتفاق رائے سے عدالت نے حکم دیا تھا، قومی اسمبلی کے انتخاب میں صوبائی حکومت کی مداخلت روکی جا سکتی ہے، الیکشن کمیشن شفاف اور مضبوط ہو تو مداخلت نہیں ہو سکتی، الیکشن کمشن نے خود حل نہیں نکالا اب عدالت کو یہ اصول وضع کرنا ہوگا، یہ مسئلہ انتظامی طور پر حل ہو سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے مزید کہاکہ الیکشن کمشن کو وزارت خزانہ کے بہانے قبول نہیں کرنے چاہیے، الیکشن کمیشن کو حکومت سے ٹھوس وضاحت لینی چاہیے، کل ارکان اسمبلی کے لیے 20 ارب کی سپلیمنٹری گرانٹس منظور ہوئیں، الیکشن کمشن کو بھی 21 ارب ہی درکار تھے، ارکان اسمبلی کو فنڈ ملنا اچھی بات ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمشن خود غیر فعال ہے، الیکشن کمشن کے استعدادکار میں اضافے کی ضرورت ہے، الیکشن کمشن نے 4 لاکھ 50 ہزار سکیورٹی اہلکار مانگے، ساڑھے چار لاکھ تو ٹوٹل آپریشنل فوج ہے، الیکشن کمشن کو بھی ڈیمانڈ کرتے ہوئے سوچنا چاہیے، فوج کی سکیورٹی کی ضرورت کیا ہے؟۔ فوج صرف سکیورٹی کے لیے علامتی طور پر ہوتی ہے، فوجی اہلکار آرام سے کسی کو روکے تو لوگ رک جاتے ہیں، جو پولنگ سٹیشن حساس یا مشکل ترین ہیں وہاں پولنگ مو¿خر ہوسکتی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہوم ورک کرکے آئیں، پتہ تو چلے کہ الیکشن کمشن کی مشکل کیا ہے، الیکشن کمیشن مکمل بااختیار ہے، کارروائی کرسکتا ہے، الیکشن کمشن کو اختیارات استعمال کرتے ہوئے دیکھا ہی نہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ فوج نے الیکشن کمیشن کو کوئیک رسپانس فورس کی پیشکش کی تھی، میرے خیال سے یہ نفری کافی ہے، آئین کی منشاء ہے کہ حکومت منتخب ہی ہونی چاہئے، بظاہر 8 اکتوبر کی تاریخ صرف قومی اسمبلی کی وجہ سے دی گئی تھی، حکومت جو کہتی ہے الیکشن کمشن خاموشی سے مان لیتا ہے۔ وکیل الیکشن کمشن نے جواب دیا کہ سرکاری اداروں کی رپورٹ پر شک کرنے کی وجہ نہیں ہے، دہشت گردی خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے 8 اکتوبر کی تاریخ دی تھی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کس بنیاد پر کہہ رہے کہ 8 اکتوبر تک سکیورٹی حالات ٹھیک ہو جائیں گے، یہ مو¿قف 22 مارچ کو تھا الیکشن کمیشن آج کیا سوچتا ہے انتخابات کب ہوں گے۔ وکیل الیکشن کمشن نے جواب دیا کہ ہدایت لے کر آگاہ کر سکتا ہوں، 9 مئی واقعات کے بعد حالات کا از سر نو جائزہ لینا ہو گا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 9 مئی کو غیر معمولی واقعات ہوئے، ان واقعات کا کچھ کرنا چاہئے، لیکن 9 مئی کا واقعہ انتخابات کے لیے کیسے مسائل پیدا کر رہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا زمینی حقائق اور شفافیت کا تعلق کمشن کی کپیسٹی سے ہے۔ ڈسکہ میں پریزائڈنگ افسران لاپتہ ہوگئے تھے۔ وکیل الیکشن کمشن نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ نے کارروائی روک رکھی ہے چیف جسٹس بولے کہ انکوائری روک رکھی ہے تو اگلی عدالت سے رجوع کرلیں۔ قانون اپنا رستہ خود بناتا ہے۔ انتخابات کیسے بہتر ہوسکتے ہیں یہ کام صرف پانچویں سال کرنے کا نہیں۔ انتخابات چودہ اپریل کو ہونا تھے، اب ایک ماہ دس دن اوپر ہوچکے ہیں، الیکشن کمشن وفاق سے کیا چاہتا ہے، یہ پالیسی کیوں نہیں بنائی۔ عدالت کو نظر آیا کہ انتخابات کیلئے صدر کو درست مشورہ نہیں دیا گیا تو کیسے خاموش رہے، کابینہ نے حکومت سے کوئی ڈیمانڈ کی ہے، سجیل سواتی نے کہا کہ کابینہ نے ڈیمانڈ دو مرتبہ مسترد کی، کابینہ کا فیصلہ ریکارڈ پر موجود ہے اورکابینہ کے انکار کے بعد الیکشن ملتوی کئے تھے۔ کابینہ کی ڈیمانڈ پر نفری بھی مزید کم کردی تھی۔ بعد ازاں عدالت نے سماعت 29مئی تک ملتوی کردی۔