تجا ہلِ عا رفانہ
آرمی چیف کہتے ہیں کہ فوج اپنی تمامتر طاقت عوام سے حاصل کرتی ہے۔ ہر سیاسی پارٹی عوام کی محتاج ہو تی ہے۔ عوام کا پلڑا جس طرف ہو وْہی پارٹی کامیابی حا صل کرتی ہے۔ اقتدار کا دارومدار عوام پر ہے۔ عوام کے احتجاج، خفگی اور مظاہروں سے طاقتور حکومتیں بھی گر جاتی ہیں۔ تمام ادارے عوامی تا ئید کے محتاج ہیں۔ یہ ملک، ادارے اورحکومتیں عوام کے ٹیکس سے چلتی ہیں لیکن گزشتہ پانچ سال سے عجب تماشہ لگا ہوا ہے کہ ہر کام میں عوام کے نام پر عوام کا مسلسل استحصال ہو رہا ہے۔ عمران خان نے چار سال میں معیشت، سیاست اور ریاست کو تباہ برباد کر ڈالا۔ عوام نے سماجی طور پر ایک بدترین سماج دیکھا۔ معاشی طور پر پاکستان کو دیوالیہ ہوتے دیکھا۔ چار سالوں میں پاکستان میں جو توڑ پھوڑ ہو ئی ہے۔ شاید وہ چالیس سال میں بہتر نہ ہو سکے۔ عمران خان کی معاشی ٹیم نے پاکستان کی معیشت کو لولا لنگڑا کر دیا۔ آج کو ئی گلی محلہ سڑک فٹ پاتھ فقیروں سے خالی نہیں ہے۔ دو منٹ سگنل پر کھڑا ہو نا عذاب بن جاتا ہے۔ مارکیٹوں میں ٹڈی دل کی طرح فقیروں اور خواجہ سرا?ں کی فوج کھڑی ہو تی ہے۔ ریسٹورینٹس، پارکس، پلازے، مالزبھی ان سے بھرے ہوئے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اگر آپ سرکاری ہسپتالوں میں چلے جائیں تو احساس ہو تا ہے جیسے پورا پاکستان فقیر بن گیا ہے۔ آج اتنی مہنگائی ہو چکی ہے کہ مارکیٹوں اور شاپنگ مالز ویران ہو گئے ہیں۔ یو ٹیلٹی سٹورز پر رش ختم ہو گیا ہے۔ لو گ ٹیکسوں اور مہنگائی کے ستا ئے ہو ئے ہیں۔ جب پی ڈی ایم کی حکومت آئی تو لوگوں نے سوچا کہ شاید اتنی ساری جماعتوں مل کر عوامی مشکلات کا حل نکالیں گی۔ ن لیگ بر سرِاقتدار آئی تو ممکن ہے کہ نواز شریف کے دو سابقہ ادوار جیسے اچھے اور بہتر حالات ہو جائیں لیکن ن لیگ سے نواز شریف کی جگہ شہباز شریف وزیر اعظم بنے اور جو، بد ترین حالات عمران خان نے کر رکھے تھے۔ شہباز شریف نے اْن حالات کو سو گْنا زیادہ خراب کر دیا۔ گڈ گورنینس کے نام پر شہباز شریف پی ڈی ایم کی چودہ جماعتوں کی خوشنودی اور آشیر باد کی خاطر تا ریخ کی سب سے بڑی کابینہ تشکیل دی یعنی86 وزرائ بنائے جبکہ لگ بھگ سو کے قریب مشیر بھی رکھے۔ جبکہ ملک کے لیے ایک بھی کام نہیں کیا۔ عوام کا نام سب لیتے ہیں۔ عوام سے ووٹ لیتے ہیں اور عوام کے ٹیکسوں پر عیاشیاں کر رہے ہیں لیکن عوام کو ریلیف پر مسلسل تکلیف بلکہ اذیت دے رکھی ہے۔ پاکستانی عوام کی زندگی دوزخ سے بھی بدتر بنا رکھی ہے۔ لو گ پاکستان میں تو فقیر بن رہے ہیں یا پھر چو ر ڈاکو بن گئے ہیں۔ راشی اور کرپٹ تو پہلے بھی تھے۔ مریض ادویات نہ ملنے سے مر رہے ہیں حالانکہ ابھی کل ہی حکومت نے ادویات کی قیمتوں میں 20 فیصداضافہ کا نو ٹیفکیشن کیا ہے۔ ملازمین اور پینشنرز کے حالات انتہا ئی خراب ہیں۔ لوگ خو دکشیوں پر مجبور ہیں۔ کیا یہ ہو تی ہے حکومت؟ اسے کہتے ہیں گڈ گورنینس؟؟ عوام کے خون پسینے کی کمائی سے خود عیاشیاں کر رہے ہیں اور عوام مر رہی ہے۔ بجٹ اسلئیے بنایا جاتا ہے کہ وہ پورا سال نا فذ العمل رہے گا لیکن یہاں تو ہفتے میں دو تین بار قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کبھی قیمتیں گھٹتی نہیں۔ پٹرول کی عالمی ریٹ کے حساب سے اصل قیمت صرف اسی نوے روپے لٹر ہونی چا ہیے لیکن حکومت نے پٹرول کی قیمتیں آسمانوں سے بھی بلند کر کے رات دن مال کھایا ہے۔ یہ بیس تیس سال پْرانے والا زمانہ نہیں کہ حقا ئق کو چْھپا لیا جائے۔ یہ آئی ٹی کا دْور ہے جہاں ایک جا ہل کے ہاتھ میں ایک موبائل ہے اور وہ اصل ریٹ معلوم کر لیتا ہے۔ شو رمچا رکھا تھا کہ جی اسحاق ڈار کے آئی ایم ایف سے بڑے دیرینہ اور قریبی تعلقات ہیں۔ اس بہانے ایک بھاگے ہو ئے شخض کو لا کر وفاقی وزیر خزانہ بنا دیا۔ سب جْرم معاف کر دئیے اور کروڑوں روپوں کی واجبات کی ادائیگی بھی کر دی۔جاننے والے جانتے تھے کہ اسحاق ڈار نے محض آئی ایم ایف کا نام استعمال کر کے عوام کی آنکھوں میں دْھول جھونکی ہے۔ آئی ایم ایف کی بھلا پاکستان سے کیا دشمنی کہ شرائط پوری ہونے کے با وجود قرض نہیں دیا۔ بہت اچھا کیا کیونکہ وہ بھی حکومت نے کھا جانا تھااور اْنکی ادائیگیاں تو عوام پر ہی ڈالی جاتی اصل چکر صرف یہ تھا کہ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کا نام لیکر اسقدر مہنگائی کی اور اتنے ٹیکس لگائے کہ امرا کی بھی چیخیں نکل گئیں۔ لوگوں کی زندگیاں حرام ہو گئیں۔ اس وقت پورا پاکستان عذاب میں ہے۔ اگر اس بجٹ میں ٹیکس لگا ئے گئے اور سرکاری ملازمین اور پینشنرز کی آمدن میں دو سو فیصد اضافہ نہ کیا گیا اور مہنگائی مسلط کی گئی تو کہیں ایسا نہ ہو کہ موجودہ حکومت جو ن میں چلتی بنے اور عوام حکومت کا تختہ الٹ دیں۔