تکریمِ شہداء

May 26, 2023

ہارون الرشید تبسم

شہادت کی قدر و منزلت لفظوں میں بیان نہیں کی جاسکتی۔ اسے من کی دنیاہی محسوس کر سکتی ہے ۔ ’شہادت‘ کا لفظی مطلب حاضر ہونے کے ہیں۔ یہ صلہ صرف مومن کا طرۂ امتیاز ہے۔ شہید بارگاہِ الٰہی میں بہت معتبر ہوتاہے۔ اللہ تعالیٰ نے مقبول بندوں کے چار درجات رکھے ہیں: انبیاء ، صدیقین، شہداء اور صالحین۔ اجرو ثواب کے اعتبار سے شہید کے خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی شہید کی بخشش کر دی جاتی ہے ۔ ایک شہید کو اپنے اہلِ خانہ کے 70افراد کی سفارش کا حق بھی دیا گیا ہے۔ شہید پر فیوض و برکات کی بارش ہوتی ہے۔ ایک شہید کو کسی چیز کی ضرورت و احتیاج باقی نہیں رہتی۔ توحید الٰہی اور عشقِ مصطفی ﷺ کی تکمیل شہادت کا بہت بڑا ثمر ہے۔ یہ بجا ہے کہ خالقِ کائنات نے مسلمان کو ایک بامقصد زندگی سے سرفراز فرمایا ہے۔ یہ زندگی اس کی امانت ہے۔ ایک نہ ایک دن ہمیں اپنے مالک کے حضور پیش ہونا ہے۔ قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :’اور وہ لوگ جو اللہ کے راستے میں شہید ہو جائیں ، ان کو مردہ مت کہیںبل کہ وہ زندہ ہیں لیکن تمھیں ان کا شعور نہیں ۔ ‘
اللہ رب العزت کی راہ میں گردن کٹوانے کی مومن کو اتنی بھی تکلیف محسوس نہیں ہوتی جتنی ایک چیونٹی کے کاٹنے سے ہوتی ہے ۔ شہید کو سپردِ خاک کرنے کے لیے غسل کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ اسے تو فرشتے غسل دیتے ہیں۔ شہید کو اسی لباس میں پیوندِ خاک کر دیا جاتا ہے جن میں اس نے جامِ شہادت نوش کیا ہو اور یہ بھی حقیقت ہے کہ شہید کے لیے جنت کے تمام دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ شہید جس دروازے سے چاہے جنت میں داخل ہو سکتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ روزِ محشر اہلِ جنت سے خواہش پوچھیں گے۔ جنت کے مکیں کسی بھی طور جنت چھوڑنے کی تمنا نہیں کریں گے لیکن شہداء کی خواہش ہو گی کہ وہ بار بار دنیا میں بھیجے جائیں تاکہ وہ راہِ حق میں گردنیں کٹواکر شہادت کا مرتبہ حاصل کریں۔ شہادت میں جو لطف و کرم ملتا ہے اسے پانے کی خواہش ان کے دل میں مچلتی ہے۔ خاتم النبیین ، سید المرسلین، محمد مصطفی ﷺ نے فرمایا : ’ وہ مومن نہیں جس کے دل میں شہادت کی آرزو نہ ہو۔‘
آج دنیا تیسری عالم گیر جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے۔ آتش و آہن سے لیس قوتیں مسلمانوں کو زیر کرنے کے لیے برسرِ عمل ہیں۔ کشمیر ، فلسطین اور کئی دیگر مقامات پر سرفروشانِ اسلام سروں سے کفن باندھے رضائے الٰہی کے لیے مصروف جہاد ہیں۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے ہماری آزادی کو آج تک تسلیم نہیں کیا۔ اسے جب بھی موقع ملا اس نے جارحیت کر کے اپنی پراگندہ ذہنیت کا ثبوت دیا ہے ۔ 11ستمبر 1948ء کو بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناحؒ کے وصال کے بعد بھارت نے پاکستان کی سرحدوں پر یلغار کر دی۔ کشمیری لائن آف کنٹرول پر بھارتی مظالم روکنے کے لیے پاک فوج نے دشمن کو عبرت ناک شکست دی۔ قائد ملت خان لیاقت خان کا لہراتا ہوا مکا آج بھی بھارت کے لیے خوف کا باعث ہے ۔ 1965ء کی جنگ میں پاک فوج اور عوام نے بھارتی خواب چکنا چور کر دیے۔ چونڈہ کے محاذِ جنگ میں جسموں پر بم باندھنے والے شہداء کو ہم کیسے بھول سکتے ہیں۔ ایم ایم عالم نے ایک منٹ میں پانچ اور مجموعی طور پر بھارت کے 9طیارے مار گرا کر فضائی جنگ کا عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ ہماری بحریہ نے بھارت کے کئی بیڑوں کو غرقِ آب کیا۔
اسی طرح کارگل جنگ میں ہمارے شہداء نے دشمن کی کثیر تعداد کے دانت کھٹے کر دیے۔ دور مت جائیے 27فروری 2019ء کو بھارت کے جنگی طیارے جونہی ہماری فضا میں داخل ہوئے تو ہمارے شاہینوں نعمان اور حسن صدیقی نے انھیں دبوچ لیا۔ عالمی سطح پر دس ملکوں کی بڑی فوجوں کے مقابلوں میں پاکستان کی فوج اول رہی۔ زلزلہ ، سیلاب، دہشت گردی اور امن کی بحالی کے لیے پاک فوج کے جوانوں نے جو قربانیاں دیں وہ سنہری حروف سے درج ہیں۔ مقامِ افسوس ہے کہ ہم شہداء کے کارناموں کو نسلِ نو تک پہنچانے میں سست روی کا شکار رہے۔ 9مئی 2023ء کو جو واقعہ رونما ہوا اس پر پوری قوم خون کے آنسو بہا رہی ہے۔ جناح ہائوس، کور کمانڈر ہائوس، جی ایچ کیو، میانوالی میں ایم ایم عالم کے ماڈل طیارے کی آتش زنی، کیپٹن کرنل شیر خان کے مجسمہ کی توڑ پھوڑ، شاہینوں کے شہر سرگودھا میں یادگارِ شہداء کی تباہی، ایسے واقعات ہیں جنھوں نے محب وطن پاکستانیوں پر گہرا اثر چھوڑا۔
سیاسی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر سوچیے جو کام قیامِ پاکستان کے بعد اب تک بھارت نہ کر سکا وہ ہم نے ایک دن میں کر دیا۔ بھارتی میڈیا پر فخریہ انداز میں یہ بات کہی جا رہی ہے کہ بغیر کسی گولی یا اسلحہ کے ہم نے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ 25مئی 2023ء کو یوم ِ تکریمِ شہداء منا کر خواب غفلت میں گم قوم کو جگانے کی کوشش کی گئی۔ پاک فوج کے ساتھ یکجہتی کی ریلیاں بھی دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ پاکستان کی مسلح افواج پاکستان کے اتحاد کی ضامن ہیں۔ قیام پاکستان سے اب تک کتنے برسرِ اقتدار آئے اور چلے گئے ۔ کرسی نے کسی سے وفا نہ کی۔ پاکستان اسلامی جمہوریہ ہے، اس پر سایۂ رحمن ہے ۔ اسے تاحشر زندہ رہنا ہے ۔ سیاست تغیر و تبدل کا شکار رہتی ہے لیکن ریاست زندہ رہتی ہے۔ مسلح افواج ، رینجرز، پولیس اور دیگر اداروں کے شہداء آج ہماری چشمِ تصور میں موجود ہیں ۔ نسل نو اپنے اِن محسنین سے دور ہو رہی ہے ۔ فاصلے کم کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں سیاسی قائدین کا احترام کرنا چاہیے لیکن ریاست کے مفادات کو ہمیشہ مقدم سمجھنا چاہیے۔

مزیدخبریں