خطا و سزا کا سفر

پاکستانی تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ہمارے رہبروں نے ہر دور میں غلطیاں کرنے میں بہت فراغ دلی کا مظاہرہ کیا۔ ایک غلطی کرنے کے بعد وہی غلطی دہرانے میں بھی بخل سے کام نہیں لیا۔ اِس سلسلے میں نہ تو کسی سطح پر مذکورہ غلطیوں کے اسباب جاننے کی سنجیدہ کوششیں کی گئیں اور نہ ہی ان کے ازالے کیلئے کوئی اصلاحی اقدامات اٹھائے گئے۔ بعض اوقات تو غلطی پر ندامت کا اظہار کرنے یا معافی مانگنے کی بجائے اْس کا دفاع بھی کیا گیا۔ اِس ناپسندیدہ فضا میں عوام اور حکمرانوں کے درمیان بد اعتمادی کی حائل خلیج وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گہری ہوتی چلی گئی۔ عوام قومی معاملات سے الگ تھلگ کیا ہوئے، حکمران ٹولے کو کھل کھیلنے کے وافر مواقع میسر آ گئے جس کا انہوں نے بھر پور فائدہ اٹھایا.۔
تاریخ کے اوراق پلٹیں تو پتہ چلتا ہے کہ قیام پاکستان کے فورا بعد خارجی محاذ پر ہم اپنے وقت کی دونوں بڑی طاقتوں کے درمیان توازن برقرار رکھنے کی پالیسی اختیار نہ کر سکے۔ جس کی وجہ سے اِس کے سنگین نتائج پاکستان کو بھگتنے پڑے۔ واضح طور پر امریکی اتحادی بننا ہمیں سوویت یونین سے دور کرتا چلا گیا۔ ہمارے پالیسی ساز اِس حقیقت کو نظر انداز کر گئے کہ سوویت یونین پاکستان کا ہمسایہ ملک بھی ہے۔ بھارت اور افغانستان کے پاکستان کے ساتھ مخاصمانہ رویے کے بعد ہم دھڑلے سے ایک اور مخالف بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ 
ہمارے حکمرانوں کی اقتدار سے چمٹے اور چپکے رہنے کی سوچ نے بھی پاکستان کو بہت نقصان پہنچایا۔ اِس روش سے سازشوں کے دروازے کھلتے چلے گئے۔ ملک غلام محمد اور سکندر مرزا کی مثالیں موجود ہیں۔ خود کو ملک کیلئے ناگزیر سمجھنے والے کبھی باعزت طریقے سے اقتدار سے رخصت نہ ہو سکے۔ سکندر مرزا کے دور میں سازشیں اپنے عروج پر رہیں۔ انہوں نے ذاتی مفاد میں نہ صرف جنرل ایوب خان کی مدت ملازمت میں توسیع کی بلکہ اْن کو ملکی سیاست میں داخل ہونے کی راہ بھی دکھائی۔ اب تو ملازمت میں توسیع نے ایک مقبول روایت کا درجہ حاصل کر لیا ہے۔ 
ہمارے ہاں دورِ آمریت کبھی بھی ملک و قوم کیلئے نیک شگون ثابت نہ ہو سکا۔ ہر دفعہ ملک جن تلخ تجربات سے گزرا، وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ ہندوستان سے دو جنگیں لڑی گئیں، ملک دولخت ہوا۔ سیاچین کے معاملے پر ہزیمت اٹھانا پڑی۔ آئین کا تقدس پامال ہوا۔ محترمہ فاطمہ جناح سے غیر مناسب اور غیر شائستہ سلوک روا رکھا گیا۔ جنوری 1960ء میں منعقد ہونے والے بی ڈی الیکشنز میں دھاندلی کا بہت شور مچا۔ یہ پہلا دھاندلی زدہ الیکشن تھا جس کی بعد میں آنے والے ہر حکمران نے پیروی بھی کی۔ دیگر وجوہات جو بھی ہوں، 1977ء میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پی این اے کی تحریک عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی بنیاد پر شروع ہوئی تھی۔ دو متنازعہ ریفرنڈم منعقد ہوئے جن کے نتائج آئین شکنوں کے اقتدار کیلئے باعثِ طوالت سہی مگر پاکستانی عوام کیلئے باعثِ شرمندگی اور دنیا کیلئے شاندار تفریح اور ذہنی آسودگی کا بہترین ذریعہ بنے۔ 2017ء اور 2023ء کے عام انتخابات میں اپوزیشن کی جانب سے شدید دھاندلی کے الزامات عائد ہونے پر تشکیل شدہ حکومتوں کی ساکھ اور کارکردگی پر انگلیاں بھی اٹھیں۔ اب عوام تو صاف و شفاف انتخابات کو ترس رہے ہیں، مگر حکمران وہی غلطی بار بار دہرا رہے ہیں۔  پاکستان میں نظریہ ضرورت 1954ء میں پاکستان کے سابق چیف جسٹس محمد منیر نے متعارف کرایا۔ اِس نظریے کی رو سے سپریم کورٹ نے گورنر جنرل، ملک غلام محمد کی طرف سے پارلیمان کی تحلیل کو جائز قرار دے دیا۔ مذکورہ فیصلے کا مطالعہ کریں تو اِس کے مْندَرِجات مضحکہ خیز ہونے کے ساتھ ساتھ خاصے دلچسپ بھی لگتے ہیں۔ اسی نظریے کے طفیل ایوب خان کے ’’انقلاب‘‘ کو جائز قرار دیا گیا۔ یہی نظریہ جنرل ضیاء  الحق اور جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کو دوام بخشنے کے کام آیا۔ یوں سمجھ لیں کہ ہر نئے فیصلے کی بنیاد اور روح وہی 1954ء والا فیصلہ ہی تھا، فقط سال اور کردار بدلے تھے۔ 
  آٹھویں ترمیم 1985ء کا آرٹیکل  (2)58B بھی ضیاء الحق کا ایجاد کردہ ہتھیار تھا جس کو انہوں نے خود بھی مئی 1988ء میں محمد خان جونیجو کی حکومت ختم کرنے کیلئے استعمال کیا اور بعد ازاں غلام اسحاق خان نے 6 اگست 1990ء کو ایک بار بے نظیر بھٹو اور 1993ء میں نواز شریف کی حکومت ختم کرنے کیلئے استعمال کیا۔ 1996ء میں صدر فاروق لغاری نے اپنی ہی پارٹی کی حکومت اسی اختیار کے ذریعے ختم کی۔ یوں آرٹیکل اٹھاون 2 بی کے بے جا استعمال سے جمہوریت کمزور اور اشرافیہ مضبوط ہوتی چلی گئی۔ تاہم ہر حکومت کی گردن پر آرٹیکل (2)(b) 58 کی آڑ میں کسا گیا شکنجہ 1993ء میں تیرھویں ترمیم کے ذریعے ہٹایا گیا مگر دسمبر 2003ء میں قومی اسمبلی نے سترہویں ترمیم کی منظوری دی جس میں ’’جزوی طور پر تیرہویں ترمیم میں صدر پاکستان کے معطل شدہ اختیارات کو بحال کر دیا۔ اس بار صدر پاکستان کے اختیارات برائے تحلیل اسمبلی کو پاکستان کی عدالت عظمیٰ کی جانب سے توثیق سے مشروط کر دیا گیا‘‘۔ 
1972ء میں نیشنلائزیشن کی پالیسی نے ملکی معیشت کو بھاری نقصان پہنچایا جس کی تلافی بعد میں آنے والی حکومتیں جدوجہد کے باوجود نہ کر سکی۔  بے نظیر بھٹو کو اقتدار سے محروم کرنے کیلئے 1985ء میں غیر جماعتی انتخابات منعقد کروائے گئے۔ اِنہی انتخابات کی کرشمہ سازی کے نتیجے میں اسمبلیوں اور حکومتوں کے ساتھ ساتھ مختلف مافیاز بھی وجود میں آئے۔ کرپشن کا بازار گرم ہوا۔ اہم محکموں میں اپنے من پسند لوگوں کو نوکریاں عطا کی گئیں۔ ریلویز، پی آئی اے، واپڈا، سوئی گیس وغیرہ میں ضرورت سے کہیں زیادہ بھرتیاں کی گئیں۔ باجوہ ڈاکٹرین نے جمہوریت کی رہی سہی اور بچی کھچی ساکھ بھی گہنا ڈالی۔ سیاسی جماعتیں شارٹ کٹ لگاتے ہوئے اشرافیہ کی آشیرباد سے بر سر اقتدار آنے لگیں۔ سلگتے بلوچستان پر کوئی چھینٹے مارنے کو تیار نہیں۔نیشنلائزیشن کی پالیسی پر وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے قومی اسمبلی کے فلور پر پارٹی کی غلطی تسلیم کی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی سزا سے متعلق موجودہ سپریم کورٹ نے فیصلے کو متنازعہ قرار دیا۔ یعنی کسی حد تک لچک تو آئی مگر ماورائے آئین قدم اٹھانے والے چاروں مرحومین مہم جو حضرات کی طرف سے اپنی زندگی میں کبھی کسی غلطی کو نہیں مانا گیا تھا۔ چنانچہ درج بالا تمام غلطیوں کی سزا قوم بھگت رہی ہے۔ بقول مظفر رزمی ’’لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی۔‘‘

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...