پرنٹ اور سوشل میڈیا پر آن گرڈ سولر پالیسی پر آئی ایم ایف کو کچی پکی یقین دہانی اور رد عمل میں عوام کے شور و غوغا کے بعد ایک مثبت خبر یہ آئی کہ سینٹ میں وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے پالیسی بیان دیتے ہوئے اعلان کر دیا کہ حکومت سولر آن گرڈ سسٹم میں کوئی تبدیلی نہیں لا رہی۔ پس منظر یہ ہے کہ پاکستان میں سورج کی دھوپ سے بجلی بنانے کا سولر سسٹم کچھ دیر سے متعارف ہوا۔ سبب ایک طبقے کے مفادات تھے۔ المیہ یہ کہ پانی سے سستی بجلی بنانے کی قدرت کی مہربانیوں کو لات مارنے اور عوام کو آئی پی پیز کے پھندے میں پھنسانے والوں کو عوام کا سب کچھ لٹ جانے پر بھی رحم نہ آیا۔ غیر فطری معاہدے کئے گئے۔بجلی نہ بنانے یا نہ دینے پر بھی ادائیگی اور وہ بھی پاکستانی کرنسی کی بجائے ڈالروں میں۔ قومی وسائل کم ہونے پر غیر فطری ادائیگی نہ ہونے پر گردشی قرضے بڑھنے کا عذاب سیلاب کے پانی کی طرح بڑھتا گیا۔ حکومتیں بدلتی رہیں اور عذاب تہہ در تہہ شدت اختیار کرتا گیا۔ سیاسی اختیارات کے ذریعے ریاست کو ڈالر میں ادائیگیوں کا پابند بنانے والے بھی پاکستانی اور ان فیصلوں کی بھینٹ چڑھنے والے بھی پاکستانی۔اچھے لوگوں کے انتخاب میں بھی لوگ سمجھ نہ سکے کہ۔
ہمیں معلوم ہوتا ہے مگر ہم بھول جاتے ہیں
مقابل ایک چہرہ، اک پس دیوار ہوتا ہے
کبھی کبھی تو خیال آتا ہے کہ دیر سے سہی لیکن شمسی توانائی نے پاکستان کے لئے ایک بڑے بحران کے خاتمے کی امید سی پیدا کر دی تھی۔ ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ ہر حکومت اپنے بجٹ کا ایک بڑا حصہ عوام کی حوصلہ افزائی کے لئے سب سڈی دے کر یا بلا سود قرضے دے کر سولر سسٹم کو عام کرنے کی بنیاد رکھتی۔حالیہ عام انتخابات میں سیاسی جماعتوں خاص طور پر موجودہ حکمران اتحاد کی بڑی جماعتوں نے اسی قسم کے نعروں کے پرچم لہرائے بھی تھے لیکن بد قسمتی سے صورت حال عجب ہو گئی ہے۔ عجیب و غریب ٹیکسوں کے بہانے بھاری بلوں سے تنگ آ کر جب لوگوں نے اپنی جمع پونجی سے خود آن گرڈ سولر سسٹم لگانے کا سلسلہ شروع کیا اور اپنے بوجھ کو کم کرنے کے ساتھ واپڈا کا بوجھ بھی کم کرنا شروع کیا تو ایسی کوششوں سے خوش ہونے کی بجائے بظاہر وہ سب کچھ کرنے کی منصوبہ بندی کی خبریں آ رہی ہیں جن سے سولر سسٹم لگانے والوں کی بھی حوصلہ شکنی ہو اور حکمران طبقے بھی عوام میں بدنام ہوں۔برا ہو قرضے لے کرڈنگ ٹپاؤ پالیسیوں کا کہ اب قرضے دینے والوں نے معیشت کے گلے کے گرد پھندے کو کسنے کا تکلیف دہ طریقہ اپنانا شروع کر دیا ہے۔بجلی کے بے تکے ٹیکسوں کے بعد اب سولر کے ذریعے قدرے سستی بجلی کو بھی نشانے پر لینے کی منصوبہ بند ی ہونے لگی ہے۔
اب خیال آتا ہے کہ ماضی میں ہمارے کچھ انتہا پسند ان سیاستدانوں کی زبان سے کون سی طاقتیں تھیں جوکالا باغ ڈیم کی مخالفت کے لئے رات دن ایک کئے ہوئے تھیں۔ تب سے ہماری معیشت کی بد قسمتی کا سفر شروع ہوا تھا اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ سب کچھ برباد ہوتا چلا گیا۔ کبھی حکم ہوا کہ ایران سے گیس تیل نہیں لے سکتے کبھی حکم ہوا چین سے کسی منصوبے میں مدد لی تو یہ ہو جائیگا۔کبھی سیاستدانوں کے ذریعے پانی سے سستی بجلی بنانے کے ڈیموں کی تعمیر کو نا ممکن بنا دیا گیا۔ پانی کبھی سیلاب کی صورت عذاب بنتا اور کبھی سمندر میں جا کر ضائع ہوتا رہا مگر ہماری حکومتیں بے بسی کی تصویر بن کر ڈنگ ٹپائو پالیسیوں سے کام چلاتی رہیں۔ ساڑھے آٹھ ارب روپے کے 94 کروڑ مفت بجلی یونٹ ختم کرنے کی بجائے گھروں سے کارخانوں تک مہنگی بجلی اور توانائی کے چکروں نے زندگی کا پورا نظام ہلا کر رکھ دیا اور ہم دنیا سے پیچھے ہوتے چلے گئے۔
اب قدرت سورج کی صورت میں مہربان ہونے لگی ہے تو پھر حکومت کا بازو مروڑا جا رہا ہے کہ قرض لینا ہے تو سستی بجلی کے ایک ذیعے کو استعمال کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کرو۔ وزارت توانائی نئی سولرائزیشن پالیسی مرتب کرنے میں لگی ہے۔
پالیسی کیا ہے ہتھکنڈے ہیں کہ کیسے سولر کے صارفین کے کھاتے کو کم سے کم فائدے تک محدود کیا جائے۔ سرکاری سطح پر دو طرح کی باتیں کی گئی ہیں ایک یہ کہ موجودہ آن گرڈ پالیسی کو گراس میٹرنگ پالیسی میں بدلا جائے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ذاتی جیب سے یا ادھار لے کر سولر سٹم لگانے والے اپنی پیدا کردہ بجلی برائے نام قیمت پر بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو دیں اور پھر متعدد ٹیکسوں کے باعث انتہائی مہنگی بجلی واپس خریدیں۔ گویا مہنگی بجلی سے بچنے کے لئے سولر سسٹم لگانے کا مقصد ہی فوت ہوجائے اور لوگ سولر آن گرڈ لگانا بند کر دیں یا پھر بیٹریوں کے ذریعے بجلی سٹور کرنے کے سسٹم پر چلے جائیں۔اس وقت صورت یہ ہے کہ واپڈا یا تقسیم کار کمپنیوں کے حساب کے تحت سولر صارفین کو 80 روپے فی یونٹ کے لگ بھگ بجلی فروخت کی جا رہی ہے جبکہ ان سے نیٹ میٹرنگ کی پیدا کردہ بجلی 22 روپے فی یونٹ کے حساب سے خریدی جاتی ہے۔ وزارت کے دانشمندوں نے دوسری تجویز یہ دی ہے کہ ریٹ 22روپے سے بھی کم کر کے 11روپے کیا جائے۔ ظاہر ہے پہلے ہی حساب کتاب میں ڈنڈی ماری جا رہی تھی اب ڈنڈہ مارنے کا ارادہ ہے۔ ایسے میں سولر سسٹم بے فائدہ ہو کر رہ جائے گا۔ یہ بھی مشورہ دیا جا رہا ہے کہ ہر گرڈ پر سولرسسٹم کی تعدادکی حدمقررکردی جائے۔ بائی بیک کے ریٹ پر نظرثانی اور نیٹ میٹرنگ صارفین کو سرمائے کی رقم تین کی بجائے پانچ سال میں واپس کی جائے۔
ان حالات میں نظر آ رہا ہے کہ سورج کی نعمت کو اپنے اخراجات سے کام میں لا کر اپنے اور ریاست کے فائدے کا سوچنے والے اب کیا سوچیں گے۔ کچھ عرصہ پہلے تک ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ آن گرڈ سولر صارفین کی طرف سے نیٹ میٹرنگ کا ماہانہ شیئر ساڑھے پانچ کروڑ یونٹ سے اوپر ہے اور سولر سے بجلی کی پیداوار تین ہزار میگا واٹ سے اوپر ہے۔ ان حالات میں جب یہ خبریں آئیں کہ لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی سولرائزیشن پالیسی کے تحت سولر سسٹم سے بجلی کی پیداوار کرنے والوں پر کڑی شرائط عائد کرنے جا رہی ہے اور یہ کہ سولر پینلز سے بجلی کی بلنگ پر’’چیک کوڈ‘‘لگا دیئے گئے ہیں، چیک کوڈ لگنے سے منظور شدہ لوڈ کے مطابق بلنگ ہو سکے گی تو پھر اس کے مثبت اورمنفی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ اس وقت ایک اطلاع کے مطابق منظور شدہ لوڈ سسٹم کی بنیاد پر لیسکو میں صارفین 1.5فیصد تک سولر سسٹم نصب کر سکتے ہیں۔ایک طرف مختلف صوبوں کے حکام اپنی سیاسی قیادت کی پالیسی کے تحت لوگوں کو سستی بجلی کے سولر نظام سے استفادے کی باتیں کر رہے ہیں مثلا سیکرٹری زراعت پنجاب افتخار علی سہو نے ایک اجلاس کی صدارت کے دوران اپنی وزیر اعلی مریم نواز شریف کی پالیسی کے تحت کہاہے کہ ٹیوب ویلز کی شمسی توانائی پر منتقلی کیلئے 12 ارب روپے کی خطیر رقم خرچ کی جا رہی ہے۔ شفاف قرعہ اندازی کے ذریعے کامیاب کاشتکاروں کی حتمی فہرستیں جاری کی جائیں گی۔
ٹیوب ویلز کی سولر سسٹم پر منتقلی کے لیے محکمہ توانائی، آبپاشی اور شعبہ اصلاح آبپاشی و زراعت توسیع فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ پنجاب میں ٹیوب ویلز کی سولر سسٹم پر منتقلی کے لیے محکمہ زراعت توسیع فصلوں کی کاشت کا ڈیٹا فراہم کرے گا۔ زیادہ گہرائی میں پانی کی دستیابی والے اضلاع کو سکیم میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح مسلم لیگ ن لاہور کے صدرو رکن قومی اسمبلی ملک سیف الملوک کھوکھر، صوبائی وزیر خواجہ عمران نذیر،عامرخان نے کہا ہے کہ سولر پینل کے وعدے پر حکومت قائم ہے۔سو یونٹ کے صارفین کو مفت سولر دیں گے۔ ایک طرف ایسی امید افزا باتیں اور دوسری طرف آن گرڈ پالیسی میں تبدیلی؟۔ گرمی نے اور گرم گرم خبروں نے عوام کی مت مار کے رکھ دی ہے اور حال یہ ہے کہ
سلامت ہیں مگر زنجیر صورت
کھنکتے ہیں مگر ٹوٹے ہوئے ہیں
ایسے حالات میں کچھ اچھی خبریں اورخاص طور پر وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری کا سینٹ میں بیان لْو کے تھپیڑوں میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہے۔اللہ کرے ان کا بیان سچ ہو اور اس پر عمل بھی ہو۔
٭…٭…٭