تین پاکستان

غالب نے اپنے ایک خط میں کسی شاگرد کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’سنو عالم دو طرح کے ہیں‘‘ ایک عالم ارواح اور دوسرا عالم آب و گل… میں عالم ارواح کا آدمی ہوں جو غلطی سے عالم آب و گل میں آ گیا ہے‘‘۔
غالب کا تو معلوم نہیں لیکن پاکستان کے موجودہ منظر نامے پر نظر دوڑائیں تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ کم از کم ہمارے ہاں عالم دو نہیں تین ہیں۔ ایک عالم وہ ہے جہاں 80 سے 85 فیصد عوام رہتے ہیں جو روز ’’اٹھو ماٹی سے میرے لعل‘‘ جیسے گانے، ترانے سن سن کر بھی عملی طور پر ’’ماٹی‘‘ میں لتھڑے چلے جا رہے ہیں۔ ان کا عالم ایک ایسی دلدل بن چکا ہے جو باہر آنے کی خواہش میں زور آزمائی کرنے والوں کو جکڑتا جا رہا ہے۔ یہ عالم صبر کا ایسا پودا بن چکا ہے جو تمنا میں سینچ سینچ کر رکھنے کے باوجود نہ پھولا نہ پھلا ہے اور ایک غیر مرئی قوت یاجوج ماجوج کی دیوار کی طرح دوبارہ توانا ہوکر انہیں انکے جہاں میں گھیرے رکھتی ہے۔ نہ صرف گھیرے رکھتی ہے بلکہ ٹانگوں سے گھسیٹ گھسیٹ غربت کی لکیر کے اتنا پار لے جا رہی ہے کہ جہاں سے واپسی کیلئے ایک زندگی ناکافی محسوس ہوتی ہے۔ مٹی میں لتھڑے اور چیتھڑوں میں جکڑے یہ لوگ انسان تو ہیں لیکن زندگی کیڑے مکوڑوں اور چیونٹیوں جیسی گزارنے پر مجبور ہیں۔ روزی کی تلاش میں صبح سے شام کر دیتے ہیں اور صرف اتنا کما پاتے ہیں کہ بچوں کا پیٹ بھر لیں یا خود کچھ زہر مار کر لیں۔ دن رات محنت کرکے بھی نیم فاقہ کشی ان کا مقدر ہے۔ اس پر بھی بس نہیں کہ اگر یہ لوگ کبھی حق کی بات کر بیٹھیں اور بنیادی حقوق کی دہائی دے لیں تو کیڑے مکوڑوں اور چیونٹیوں کی طرح ہی مسل دیئے جاتے ہیں۔ نامیوں کے نشان تو مٹنے کا سنتے آئے ہیں لیکن ان بے نامیوں کو ایسے بے نشان کر دیا جاتا ہے جسے یہ کبھی تھے ہی نہیں اور ان کے سنگی ساتھی بھی انہیں بھلا دیتے ہیں کیونکہ طاقتور سے دشمنی کون مول لے۔ ٹوٹی پھوٹی ہی سہی زندگی تو ہے جسے کسی نہ کسی طرح آگے تو بڑھانا ہی ہے۔ 
 دوسرا عالم ان تیرہ چودہ فیصد دو چہرے والے افراد کا ہے جن کے نزدیک، نظریات، حق بات، انسانیت، بنیادی حقوق وغیرہ کچھ معنی نہیں رکھتے، سب کچھ ذاتی مفادات کے حصول کا نام ہے۔ یہ لوگ روز صبح کان پر قلم رکھ کر نکل کھڑے ہوتے ہیں اور قصیدہ گوئی کی معراج تک پہنچنے کی تگ و دو میں سارا دن، ساری زندگی گزار دیتے ہیں۔ ان کا خوشامد سے لبریز چہرہ بروقت اپنے آقاؤں کے سامنے رہتا ہے جو انہیں سب اچھا کی رپورٹ دیتا رہتا ہے اور بڑے مودب انداز میں سمجھاتا رہتا ہے کہ پیالی میں اکثر طوفان آ جاتے ہیں اس میں گھبرانے کی کیا بات ہم ہیں نا سب کچھ سنبھالنے اور کیڑے مکوڑوں کی لائی آفتیں ٹالنے کیلئے … ہمارا ماضی گواہ ہے کہ ہم نے ہر کڑے وقت میں خم ٹھونک کر سرکار کی خدمت کی ہے اور خلعتوں کے ڈھیر کے ڈھیر انعام میں پائے ہیں۔ ان تیرہ چودہ فیصد افراد کا دوسرا چہرہ بڑے مکارانہ انداز میں ناداروں کے سامنے رہتا ہے اور انہیں باور کراتا رہتا ہے کہ جو کچھ بھی ہے وہ تقدیر کا کیا دھرا ہے۔ بھلا بڑے صاحب کا اس میں کیا قصور؟ انہیں ناراض نہیں کرنا، کوئی اختلاف نہیں رکھنا۔ بڑے صاحب تو اپنے لئے کچھ سوچتے ہی نہیں، ہر لمحہ ناداروں کی تقدیر بدلنے میں لگے رہتے ہیں اور بس… اس فکر میں غلطاں رہتے ہیں کہ کہیں قحط ناداروں کو نہ آ لے۔ چنانچہ ضرورت سے زیادہ گندم امپورٹ کر لیتے ہیں، کسان خواہ مخواہ احتجاج کرتے ہیں۔ اندھیروں سے لڑنے کیلئے آئی پی پیز کو بلا لیتے ہیں تو بے وفا لوگ آئی پی پیز کو ’’ایسٹ انڈیا کمپنی‘‘ کہنے لگتے ہیں۔ فارن ریزرو مستحکم رکھنے کیلئے آئی ایم ایف سے کچھ کھائے پیئے بغیر گھنٹوں مذاکرات کرتے رہتے ہیں کہ خزانہ میں کچھ ہمت، سکت ہو گی تو وہ چند افراد کو مفت بجلی، بڑی گاڑیاں اور بنگلے دلوا سکے گا۔ اور یہ چند لوگ کوئی غیر نہیں وہی ہیں جنہوں نے وطن کی، ناداروں کی دن رات خدمت کی ہے اور آئندہ بھی کرتے رہنے کا عزم رکھتے ہیں۔ بس سبسڈیز کی عنایتوں کا سلسلہ نہیں رکنا چاہئے، وہی چند لوگ ہیں جو ناداروں کو بھی بلز میں اور روز مرہ اشیاء پر طرح طرح کے ٹیکس عائد کرکے وطن سے بے لوث محبت کا ثبوت دینے کا موقع فراہم کرتے رہتے ہیں یہ چند افراد ناداروں کیلئے کشکول اٹھا اٹھا کر ملکوں ملکوں گھومتے ہیں۔ اپنی اناؤں کو خاطر میں نہیں لاتے حالانکہ انہیں کیا۔ ملک چلے نہ چلے ان کی تو بیرون ملک اتنی جائیدادیں ہیں کہ کسی شمار قطار میں نہ آسکیں۔ جن کی ابھی جائیدادیں نہیں ہیں کوئی پروگرام ان کے پاس بھی نہیں بس عوامی خدمت کے نام پر اقتدار کی بھوک ہے جو وہ ہر قیمت پر مٹانا چاہتے ہیں چاہے ملک ہی داؤ پر لگ جائے۔ 
تیسرے اور محفوظ ترین عالم میں ہمارے وہ دو تین فیصد مہربان خود قدم رنجہ فرما ہیں جن کی تعریفوں کے پل باندھے جاتے ہیں جو ملک میں رہیں یا بیرون ملک …پیدا ہم پر حکمرانی کیلئے ہی ہوتے ہیں۔ ان کے اطلس و کمخواب میں بنوائے عالم میں مٹی سے لتھڑے ، چیتھڑوں میں جکڑے، بھوک میں لپٹے لوگوں کا کوئی تصور نہیں کہ یہ دنیا ہی کچھ اور قسم کی ہے۔ یہ وہ قسم ہے جن کے بچوں کو سکولوں میں اگر غربت پر مضمون لکھنا پڑ جائے تو سخن کچھ اس طرح ہوتا ہے کہ ’’فلاں خاندان بہت غریب تھا اتنا کہ ان کا ڈرائیور، خانساماں اور دیگر ملازمین بھی بہت غریب تھے۔
یہ اور ان کے تیرہ چودہ فیصد حواری قوم کی لاج رکھنے کے بھی بہت کام آتے ہیں۔ جب کوئی قوم کو بھوک ننگ اور گداگری کے طعنے دیتا ہے تو انہی لوگوں کے بڑے بڑے بنگلے، چمچماتی، فراٹے بھرتی گاڑیاں اور بڑی بڑی عمارتیں دکھا کر ہی باور کرایا جاتا ہے کہ ملک امیر ہے غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے کروڑوں ناداروں اور تعلیمی اداروں سے باہر رہنے والے لاکھوں بچوں کی کہانیاں کسی اور ملک کی ہیں۔یہاں تو دولت کی ریل پیل ہے اور معیار زندگی ہے کہ کچھ کئے بغیر ہی بلند سے بلند تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ بنیادی حقوق کی ایسی فراوانی ہے کہ دوچار سال تک دھرتی مظلوموں کے پاؤں تلے دھڑکنے والی ہے۔
 ہم کسے دھوکہ دے رہے ہیں کہ سب کچھ ایسے ہی چلتا رہے گا۔ کیا ہمیں یاد نہیں کہ اس طرح کی صورتحال نے فرانس میں کیسا انقلاب برپا کیا تھا۔ اور یہ کہ جب روٹی کو ترسنے والوں کو کیک کھانے کے مشورے دیئے جاتے ہیں تو کیا ہوتا ہے؟ کیا ہم نے حضرت علیؓ کا قول بھی فراموش کر دیا ہے کہ معاشرے کفر کے ساتھ تو زندہ رہ سکتے ہیں ظلم کے ساتھ نہیں۔
ہماری یاد داشتیں اتنی کمزور کیوں ہو گئیں کہ چرچل کا وہ مشہور واقعہ بھی محو کر بیٹھے جب ہٹلر کے طیارے لندن کی اینٹ سے اینٹ بجا رہے تھے تو اس نے پوچھا تھا کیا ہماری عدالتوں میں انصاف مل رہا ہے۔ جواب اثبات میں پاکر مطمئن انداز میں چرچل بولا تھا کہ پھر ہمیں کوئی خطرہ نہیں۔ 
خدارا! اٹھیں زمانہ چال قیامت کی چل گیا ہے۔ اپنے معاشرے کو روٹی، تعلیم، چھت اور سب سے بڑھ کر میرٹ کی حکمرانی دیکر بچالیں کہ اسے ان کی بہت ضرورت ہے۔ ایسا نہ کیا تو یاد رکھیں معاشرے کفر کے ساتھ تو قائم رہ سکتے ہیں لیکن ظلم کے ساتھ نہیں۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...