ٹوبہ ٹیک سنگھ میں قیام کے دوران ہی میں انگریزی روزنامہ سول اینڈ ملٹری گزٹ کا نمائندہ بھی بن گیا۔ ہوا یہ کہ یہ اخبار ممتاز صنعت کار اور سیاست دان نصیر اے شیخ نے خرید لیا اور ایک انگریز ایڈیٹر کلاڈ سکاٹ کو اخبار کا چیف ایڈیٹر مقرر کر دیا۔ لائل پور کے اخبار فروشوں کی ایک بڑی جماعت ٹوبہ ٹیک سنگھ آئی۔ ان کا مقصد وہاں اس اخبار کی ایجنسی قائم کرنا تھا۔ میں نے ان سے ہرممکن تعاون کیا اور قریبی قصبوں میں اخبار کی فروخت کے انتظام میں بھی ان کی مدد کی۔ انہوں نے مجھے یہ خوش خبری دی کہ میں اپنے آپ کو اب سول اینڈ ملٹری گزٹ کا نمائندہ سمجھوں اور وہ واپس جا کر میرے لئے تقرر نامہ بھجوا دیں گے۔ میری خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی۔ چند روز بعد ہی مجھے تقرر نامہ موصول ہوگیا۔ اس میں میرا معاوضہ مقرر کیا گیا تھا دس روپے فی کالم۔ سول اینڈ ملٹری گزٹ چونکہ ٹیبلائڈ سائز پر شائع ہوتا تھا۔ اس لئے ان کے کالم کا سائز اردو اخبار امروز کے مقابلے میں لگ بھگ نصف تھا پھر سول اینڈ ملٹری گزٹ کے معاوضے میں صرف خبروں کا متن ہی نہیں سرخیاں بھی شمار کی جاتی تھیں جبکہ امروز میں صرف خبروں کا متن شمار کیا جاتا تھا۔ میرے تقرر نامہ کے ساتھ محکمہ ڈاک کی جاری کردہ ٹیلی گراف اتھارٹی بھی منسلک تھی جس میں مجھے پورے پاکستان سے کسی پیشگی ادائیگی کے بغیر ٹیلی گرام بھیجنے کا اختیار بھی تفویض کیا گیا تھا ۔ اس ٹیلی گراف اتھارٹی میں جن سینئر صحافیوں کے نام شامل تھے ان میں ممتاز صحافی شاہین صہبائی کے والد جناب قدوس صہبائی، آئی ایچ راشد اور ارشاد احمد حقانی کے نام بھی شامل تھے۔ یہ اعزاز بھی مجھے ہمیشہ یاد رہے گا۔
سول اینڈ ملٹری گزٹ نے مجھے لائل پور میں وزیراعظم حسین شہید سہروردی کے جلسے کی کوریج کے لئے مامور کیا۔ میں ٹوبہ ٹیک سنگھ سے ریل کے تیسرے درجے میں سفر کرکے لائل پور پہنچا اورریلوے اسٹیشن سے سیدھا دھوبی گھاٹ چلا گیا جہاں جلسہ منعقد ہونے والا تھا۔ میرے پاس کسی قسم کی شناختی دستاویز موجود نہیں تھی۔ اس لئے عوامی لیگ کے رضاکاروں نے مجھے جلسہ گاہ میں داخل ہونے سے روک دیا۔ یہ محض حسن اتفاق تھا کہ میرے ایک دوست عبدالرحمن شاکر نے جن سے غریب کے دفتر میں میری ملاقات رہی تھی مجھے دیکھ لیا، وہ اس وقت عوامی لیگ کے عہدے دار بھی تھے اور جلسہ کے منتظمین میں بھی شامل تھے۔ وہ میرے گلے میں اپنے بازو حمائل کرکے مجھے پریس گیلری میں لے گئے جہاں میرے ساتھ ہی جناب خالد بٹ تشریف فرما تھے۔ جو اس وقت لائل پور میں پاکستان ٹائمز کے بیورو چیف تھے۔ بٹ صاحب بڑے شگفتہ مزاج کے انسان تھے۔ بعد میں وہ سال ہا سال پی آئی اے کے جنرل منیجر پبلک افیئرز رہے ۔ اب وہ اس دنیا میں نہیں ہیں ۔ بٹ صاحب نے از راہ تمسخر مجھ سے پوچھا۔ ’’تو ایتھے کی کرن آیاں ایں‘‘۔ میں نے انہیں بتایا کہ مجھے سول اینڈ ملٹری گزٹ نے اس جلسہ کی کوریج کے لئے مامور کیا ہے کیوں کہ مقامی بیورو چیف بشیر قریشی علیل ہیں تب بٹ صاحب نے مجھے کہا کہ میں ان کے ساتھ ہی ٹیلی گراف آفس چلوں تاکہ ہم دونوں وہاں سے اپنے اپنے دفتر ٹیلی گرام بھیج سکیں۔ جلسہ ختم ہوا۔ خالد بٹ صاحب نے قریب ہی ایک گھر میں رکھی ہوئی اپنی سائیکل نکالی۔ مجھے آگے بٹھایا اور سائیکل ٹیلی گراف آفس کی طرف دوڑا دی۔جب ہم ٹیلی گراف آفس پہنچے تو بٹ صاحب کی ٹائپ رائٹر پہلے سے وہاں موجود تھی۔ وہ ایک منجھے ہوئے اور تجربہ کار رپورٹر تھے اور انگریزی زبان پر انہیں عبور حاصل تھا۔ ان کی ٹائپ رائٹر کی کھٹا کھٹ میرے کانوں میں گونج رہی تھی اور میں اپنے اردو نوٹس کی مدد سے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں خبر تیار کررہا تھا۔ بٹ صاحب نے اپنی خبر مکمل کرلی، متعلقہ ٹیلی گراف آپریٹر کو سونپی اور مجھے بائی بائی کہتے ہوئے چل دیئے۔ میں نے گھڑی پر نظر ڈالی۔ مجھے اندیشہ ہوا کہ مجھے ابھی خبر مکمل کرنے میں کچھ اور وقت لگے گا پھر میری ٹیلی گرام کاپی جانے سے پہلے اخبار کے دفتر میں پہنچتی ہے یا نہیں اس خیال سے میں نے تار بھیجنے کا ارادہ ترک کر دیا اور ٹیلی فون کی کال بک کروالی۔ میں نے آدھی اردو اور آدھی انگریزی میں خبر نیوز ڈیسک کو لکھوائی اور ڈگلس پورہ میں اپنے چچا کے گھر چلا گیا۔ صبح اٹھا تو ناشتہ کرنے کے بعد گھنٹہ گھر چوک آگیا تاکہ اخبار دیکھوں کہ میری خبر کا کیا حشر ہوا۔ میری خبر شہ سرخی تھی اور اس کا عنوان تھا۔ "One Unit Shall Stay" "Suhrawardi warns officials at loyalpur"یہ سرخی اوراپنی کریڈٹ لائن پڑھ کر میرے پائوں زمین پر نہیں جم رہے تھے۔ پھر میں نے پاکستان ٹائمز دیکھا۔ تمام صفحات الٹنے پلٹنے کے باوجود وہاں کوئی خبر شائع نہیں ہوئی تھی۔ ظاہر ہے کہ میرا اندیشہ درست ثابت ہوا اور خالدبٹ صاحب کا بھیجا ہوا ٹیلی گرام وقت پر نہیں پہنچ سکا۔ گیارہ بجے زرعی کالج (اب یونیورسٹی) میں سہروردی صاحب کا خطاب تھا۔ میں جس کرتے پاجامے میں ملبوس تھا اور رات بھی جس میں بسر کی تھی وہی پہن کر زرعی کالج چلا گیا۔ وہاں پریس گیلری میں پھر میری جگہ خالد بٹ صاحب کے قریب تھی۔ خالد بٹ صاحب کو جہاں اپنی خبر شائع نہ ہونے کی خفت تھی وہاں میری خبر شائع ہونے پر وہ میرا حوصلہ بھی بڑھا رہے تھے۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ یہ تقریب ختم ہونے کے بعد میں ان کے ساتھ چل کر کسی چائے خانے میں چائے پیئوں۔ ابھی ہماری بات چیت جاری تھی ۔ وزیراعظم حسین شہید سہروردی ہال میں داخل ہوئے، پریس گیلری کے قریب سے گزرے اورخالد بٹ صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے انگریزی میں پوچھا "Who represents CMG" خالد بٹ صاحب نے میری طرف اشارہ کیا اور میرا نام لیا کہ جناب یہ ہیں سی ایم جی کے نمائندے۔ سہروردی صاحب نے کہا آپ کا سٹوری اچھا تھا۔ تقریب ختم ہوئی اور میں اورخالد بٹ کسی چائے خانے کی تلاش میں اسی سائیکل پر روانہ ہوئے جس پر بٹ صاحب مجھے دھوبی گھاٹ سے جی پی او لے گئے تھے۔ چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے انہوں نے کاغذ اور پین جیب سے نکالے اور مجھے ایک بل بنا کر دیا کہ میں یہ سول اینڈ ملٹری گزٹ کو بھیج دوں۔ اس میں ٹوبہ ٹیک سنگھ سے لائل پور تک فرسٹ کلاس کا کرایہ، ہوٹل میں رات کا قیام اور ٹرانسپورٹ کا خرچ شامل تھا۔ اس مہینے سول اینڈ ملٹری گزٹ سے جو رقم مجھے موصول ہوئی وہ220 روپے تھی۔ میں نے منی آرڈر کا یہ کوپن اب تک اپنے پاس محفوظ رکھا ہوا ہے۔