اتوار‘17 ذیقعد 1445ھ ‘ 26 مئی 2024ء

May 26, 2024

وفاقی بجٹ سے قبل خیبر پی کے کا صوبائی بجٹ، پھرتی یاپوائنٹ سکورنگ ۔
اب معلوم نہیں یہ خیبر پی کے حکومت کا بڑا کارنامہ ہے یا اعزاز یا پھر روٹین سے ہٹ کر کوئی کارروائی۔ اس کا کیا نتیجہ نکلے گا یہ ہم نہیں جانتے یہ سیاستدانوں کا کام ہے کہ وہ ایسے انہونے کاموں کے حوالے سے اپنا نکتہ نظر رکھتے ہیں۔ اب کہیں یہ رواج نہ بن جائے کہ جب پی ٹی آئی کی حکومت ہو تو کوئی اور صوبہ بھی مرکزی بجٹ سے پہلے اپنا بجٹ پیش کردے۔ اس پر پھر جلنے بھننے سے کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ 
بہرحال اب بجٹ کو دیکھ کر پتہ چلے گا کہ کیسا ہے کس کس کو فائدہ ہوتا ہے اور کس کس کو نقصان۔  جذباتیت کی وجہ سے ہم لوگ پہلے کام کرتے ہیں اور بعد میں سوچتے ہیں۔ یہ طرز عمل نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے۔ اس لیے بہت زیادہ تحمل کی ضرورت ہے ورنہ صرف واہ واہ کے لیے ایسا کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ سب جانتے ہیں کہ مرکز اور خیبر پی کے میں ایک دوسرے کے مخالف برسراقتدار ہیں اور ان کے درمیان سردجنگ کی کیفیت ہے۔ خدا جانے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کی  بیل منڈھے چڑھتی ہے یا نہیں۔ خدا جانے آنے والے بجٹ میں کیا کیا پاپڑ بیلنے ہوں گے۔ اب اگر  خیبر پی کے کے پہلے سے ہی مطالبے پورے نہ ہو سکے تو کیا تنازعات نیا رنگ نہیں لیں گے۔  اس لیے اس وقت نمبر سکور کرنے کی بجائے معاملات بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ 
٭٭٭٭٭
یاسمین راشد نے ہسپتال کو جیل سے بدتر قرار دیدیا۔
اب خدا جانے ایسا کیا ہوا کون سی عجب بات ہوئی ہے کہ یاسمین راشد جو خود بھی ڈاکٹر ہیں۔ سروسز ہسپتال کو کوٹ لکھپت جیل سے بھی بدتر قرار دے رہی ہیں۔ وہ بخوبی جانتی ہیں کہ ان کے دور میں جب وہ وزیر صحت تھیں ہسپتالوں کی یہی حالت تھی۔ حکومتیں بدلتی رہتی ہیں مگر ہسپتالوں اور جیلوں کی حالت وہی رہتی ہے۔ اب تو بقول یاسمین راشد جیل ہی بہتر تھی تو اس کا مطلب ہے بقول  حضرت غالب 
 گوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے
یعنی یاسمین راشد جیل میں سکون محسوس کر رہی تھیں مگر اب کیا کیا جائے بیماری کی وجہ سے انہیں جیل سے ہسپتال کا رخ کرنا پڑا۔ خدا انہیں صحت کاملہ دے۔ اگر انہیں کچھ ہو جاتا تو حکومت کو لینے کے دینے پڑ جاتے۔ ویسے عوام.کے لیے جیل ہو یا ہسپتال دونوں برابر ہوتے ہیں۔ اذیتیں ملتی ہیں۔ اب جبکہ پرویز الٰہی جیسے بزرگ قیدی جیل سے چھوٹ گئے ہیں ضمانت پر باہر آ گئے ہیں تو جیل میں بند پی ٹی آئی کی اس بزرگ خاتون رہنما کو بھی کچھ نہ کچھ رعایت ملنی ہی چاہیے۔ وہ گزشتہ روز سے بہت بیمار ہیں شاید انہیں ڈائریا ہو گیا ہے۔ کھا پی کچھ نہیں رہیں۔ قے پہ قے آ رہی ہے۔ خود جیل حکام انہیں تشویشناک قیدی قرار دے رہے ہیں۔ اس سے پہلے کہ کوئی نیا مسئلہ پیدا ہو ان کو سروسز ہسپتال داخل کرایا گیا ہے تاکہ ان کا علاج ہو۔مگر وہ اس سے بھی خوش نہیں۔ بے شک ان پر الزامات جو بھی ہوں بہرحال وہ ایک بزرگ خاتون ہیں۔ اوپر سے ایک خطرناک مرض میں مبتلا بھی ہیں۔ ان کے ساتھ نرمی برتنے سے حکومت پنجاب کی نیک نامی میں اضافہ ہو گا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز خود بھی ایک رحم دل خاتون ہیں۔ قید و بند کی صعوبتوں سے گزر چکی ہیں۔ 
٭٭٭٭٭
میں پیدا نہیں ہوا،  بھیجا گیا ہوں۔ مودی کا ذہنی خلجان یاباؤلا پن۔
یہ تو ثابت شدہ بات ہے کہ نریندر مودی کو راشٹریہ سیوک سنگھ والوں نے ہندوستان کی سیاست میں بھیجا ہے اور وہ بھی صرف اس لیے کہ یہ ان کا تیار کردہ مسلم دشمنی کا سب سے مہلک ہتھیار ہے۔ اس کی تربیت ہی خالص ہندو توا کے احیا کے لیے کی گئی ہے۔ وہ بھارت کو ہندو ریاست بنانے کے چکر میں یہاں سے مسلم ، عیسائی، بودھ اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو نیست و نابود کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا اصل ٹارگٹ مسلمان ہیں جو بھارت میں کروڑوں کی تعداد میں بستے ہیں۔ یہ ہنستے بستے مسلمان بی جے پی والوں کو برداشت نہیں ہو رہے اور وہ انہیں تباہ کرنے کے چکر میں پورے ملک کو تباہی کی راہ پر لے جا رہے ہیں۔ متعصب، انتہا پسند سوچ رکھنے والوں کے برعکس سنجیدہ بھارتی جانتے ہیں کہ نفرت کی سیاست ملک کو کہاں لے جا سکتی ہے۔ اگر بھارت اسی راہ پر چلتا رہا تو جلد ہی اسے کئی حصوں میں تقسیم ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ویسے بھی اس وقت بھارت میں درجن بھر سے زیادہ علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ یہ نفرت کی سیاست ان کی راہ ہموار کر رہی ہے۔ اس کے باوجود  مودی جی  مالیخولیا کے اسیر ہو کر خود کو اوتار کا درجہ دے رہے ہیں، یوں سمجھ لیں اپنے منہ میاں مٹھو بن رہے ہیں۔ ویسے بھی ان کے اردگرد موجود ان کے چمچے ان کا دماغ خراب کرنے میں ماہر ہیں۔ جلد ہی  یہ الیکشن بھی وہ جیت گئے تو اسے بھگوان ہی نہ بنا دیں کہ  جبکہ بھارت کی اقلیتیں انہیں بھگوان نہیں راکھشس سمجھتی ہیں کیونکہ ان کے کرتوت ہی ایسے ہیں۔ 
٭٭٭٭٭
سائنسدانوں نے خلا میں زمین جیسا سیارہ دریافت کر لیا۔
 اب خدا اس نئے سیارہ پر رحم کرے کیونکہ حضرت انسان اب نئی زمینوں کی تلاش میں وہاں کا رخ کرے گا اور تاریخ گواہ ہے انسان کے قدم جہاں جہاں پڑے وہاں کا چین و سکون رخصت ہو گیا۔ اب یہ زمین انسانوں کے لیے تنگ پڑتی جا رہی ہے۔ انسانوں نے خود اس جنت کو دوزخ میں تبدیل کر دیا ہے۔ باہمی تنازعات، جنگیں ماحولیاتی تباہی آخر یہ تمام عوامل یہ صدموں کی ماری زمین کب تک ان صدمات کو سہتی رہے گی۔ اس کا اندازہ خود انسان کو بھی ہے اس لیے وہ ابھی سے زندگی بسر کرنے کے لیے نئی زمینیں تلاش کر رہا ہے۔ کبھی چاند کبھی زہرہ پر زندگی کی رمق تلاش کر رہا ہے کبھی خلائے بسیط میں دور دراز سیاروں کو انسانی حیات کے لیے موزوں پانے کی جستجو میں  ہے۔ یہ تلاش بڑے عرصے سے جاری ہے کیونکہ زمین اب اپنے بوجھ سے نجات چاہنے لگی ہے۔ چنانچہ اب اطلاعات یہی ہیں کہ زمین سے 40نوری سال کے فاصلے پر ایک سیارہ ایسا ملا ہے جہاں زندگی تحفظ پا سکتی ہے یعنی حضرت انسان وہاں زندہ رہ سکتا ہے۔ دعا ہے کہ خدا اس سیارے کو انسانی تباہی سے محفوظ رکھے اور موجودہ زمین میں ہی انسانوں کو امن و سکون سے رہنے کی توفیق دے تاکہ نسل انسانی برقرار رہے ورنہ یہ تو سب جانتے ہیں کہ دنیا میں جو کچھ ہے فنا ہو جانے کے لیے ہے۔  بقا صرف عظمتوں اور جلال والے رب کو ہی  ہے۔ 
٭٭٭٭٭

مزیدخبریں