کوئی بھی شخص جب دائرہ اسلام میں داخل ہوتا ہے تو وہ اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ ’’میں گوہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں ‘‘
انسان کی ساری طاقتوں اور قوتوں کا راز اپنے خا لق و مالک کے ساتھ وابستگی سے ہے۔ اگر انسان کی وابستگی اللہ تعالی کی ذات سے ختم ہو جائے تو اس سے کمزور اور بے بس کو ئی نہیں اور اگر یہ وابستگی پختہ ہو جائے تو اس سے طاقتور کوئی شخص نہیں۔ بقول علامہ محمد اقبال :
اپنے رازق کو نہ پہچانے تو محتاج ملوک
اور پہچانے تو ہیں تیرے گدا دار اوجم
انسان جس قدر عاجزی و انکساری کے ساتھ اللہ تعالی کی بارگاہ کا فقیر بنتا ہے اور اس کا رشتہ جس قدر اس کی ذات اقدس سے مضبوط ہوتا ہے ذات باری تعالی اسی قدر قوی اور طاقتور بنتی چلی جاتی ہے۔ نماز کی ادائیگی سے االلہ تعالی کی مدد حاصل ہوتی ہے۔ جب بندہ ساری دنیا کو چھوڑ کر اور اپنی تمام تر پریشانیوں کو ترک کرکے خشوع و خضوع کے ساتھ اللہ تعالی کی بارگاہ میں کھڑ اہو کر کہتا ہے کہ اے اللہ میں تیری ہی عبادت کرتا ہوں اور تجھ سے ہی مدد چاہتا ہوں۔ اور اللہ تعالی کی عظمت و رفعت اور اس کی پاکی کو بیان کرتا ہے۔ جب بندہ بے بسی کی حالت میں پختہ یقین کے ساتھ االلہ تعالی کو پکارتا ہے تو اللہ تعالی کی مدد اسے گرنے نہیں دیتی۔ اللہ تعالی نے جب بنی اسرائیل پر بارہ نگران مقرر کیے تو انہیں فر مایا میں تمہارے ساتھ ہوں اگر تم نماز ادا کرو۔
ارشاد بااری تعالی ہے : ’’ بیشک ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا اور ہم نے ان میں سے بارہ نگران مقرر فرمائے اور اللہ تعالی نے فرمایا بیشک میں تمہارے ساتھ ہوں اگر تم نماز قائم کرو ‘‘۔ (سورۃ المائدہ )۔
اہل ایمان کو صبر کرنے اور نماز کی ادائیگی سے ہی اللہ تعالی کی مدد طلب کرنے کا حکم ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے : ’’اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد چاہو‘‘۔ (سورۃ البقرہ)۔
حضور نبی کریم ﷺ کو جب بھی کبھی کوئی مشکل پیش آتی تو آپ ? نماز ادا فرماتے۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی سخت معاملہ پیش آتا تو آپؐ فوری نماز کی طرف متوجہ ہو جاتے تھے۔( ابودائود )
حضور نبی کریم ﷺ کی یہ عادت کریمہ کہ جب بھی کوئی پریشانی آئے فوری نماز کی طرف متوجہ ہو نا مسلمانوں کو اس بات کا درس دیتی ہے کہ نماز کمزوروں کی طاقت ، بے سہاروں کا سہارا ہے۔