عالمی عدالت انصاف نے اسرائیل کو رفح میں فوجی اپریشن فوری طور پر روکنے کا حکم دیا ہے۔ عالمی عدالت انصاف کی جانب سے یہ حکم گزشتہ روز عدالت کے 15 میں سے 13 ججوں کی واضح اکثریت کے ساتھ صادر کیا گیا۔ عدالت نے یہ حکم بھی دیا کہ اسرائیل عدالتی حکم کی تعمیل کی رپورٹ ایک ماہ کے اندر اندر پیش کرے اور رفح کراسنگ کو فوری طور پر کھول دیا جائے۔ عدالت نے باور کرایا کہ اسرائیلی اقدامات سے فلسطینی عوام کو شدید خطرات لاحق ہیں اس لئے اسرائیل فوجی کارروائیاں فوری طور پر بند کردے۔ عالمی عدالت انصاف نے یہ فیصلہ جنوبی افریقہ کی درخواست پر صادر کیا جس میں اسرائیل سے اس امر کا تقاضا بھی کیا گیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے فیکٹ فائنڈنگ مشن کو غزہ تک رسائی دے۔ عالمی عدالت انصاف کے صدر نواف سلام نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے رواں ماہ سات مئی کو رفح میں ملٹری اپریشن شروع کیا جس کیخلاف دائر درخواست کی سماعت کی گئی ہے۔ عدالت نے باور کرایا کہ اسرائیل کے اپریشن سے غزہ شہر کا انفراسٹرکچر تباہ ہو گیا ہے اور ہزاروں قیمتی جانوں کا نقصان ہوا ہے جبکہ اسرائیل کی جانب سے فوجی اپریشن بدستور جاری ہے۔ اسرائیلی کارروائیوں سے بچنے کیلئے جب غزہ سے لاکھوں لوگ رفح پہنچے تو اسرائیل نے وہاں بھی ملٹری اپریشن شروع کر دیا جو انسانیت کیخلاف جرم ہے۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ اسرائیل کے سرپرست امریکی صدر جوبائیڈن نے رفح میں فوجی اپریشن روکنے سے متعلق عالمی عدالت انصاف کے اس فیصلہ کی نہ صرف بھد اڑائی بلکہ عالمی عدالت انصاف کے دائرہ اختیار کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ بائیڈن کے بقول اسرائیل اور حماس کے مابین کوئی مطابقت اور برابری والا معاملہ نہیں اس لئے عدالت اسرائیل کو فوجی اپریشن روکنے کا حکم نہیں دے سکتی۔ اسی طرح اسرائیل نے بھی عالمی عدالت انصاف کے اس فیصلہ پر عملدرآمد سے انکار کر دیا جس کے وزیر خزانہ سمٹریچ نے پوری ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ بندی کے حکم پر کسی صورت عملدرآمد نہیں کیا جا سکتا۔ انکے بقول غزہ پٹی میں جنگ کو روکنے کا مطلب اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانا ہے۔ دوسری جانب سعودی عرب اور حماس نے عالمی عدالت انصاف کے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔ سعودی وزارت خارجہ کی جانب سے اس سلسلہ میں باضابطہ بیان جاری کیا گیا اور کہا گیا کہ عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ فلسطینیوں کے اخلاقی اور قانونی حق کی جانب مثبت پیش رفت ہے۔ ایسے عالمی فیصلوں میں تمام فلسطینی علاقوں کو شامل کیا جانا چاہیے۔ ویسے تو فلسطینی عوام اپنی ہی سرزمین پر برطانوی سازش کے تحت تشکیل دی گئی ناجائز ریاست اسرائیل کو گزشتہ 75 سال سے برداشت کر رہے ہیں اور اسکے مظالم سہہ رہے ہیں جبکہ اس ناجائز ریاست کی پروردہ استعماری طاقتوں نے نہ صرف فلسطینیوں پر ڈھائے جانیوالے مظالم روکنے کیلئے کبھی کوئی آواز نہیں اٹھائی بلکہ ان مظالم کیلئے اسرائیل کو باقاعدہ کمک بھی فراہم کی جاتی رہی۔ 60ء کی دہائی میں کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی بنیاد پر اقوام متحدہ نے مسئلہ فلسطین کا دو ریاستی حل پیش کیا جو درحقیقت ناجائز ریاست اسرائیل کو تسلیم کرنے والا حل تھا مگر اسرائیل نے اس حل کو بھی قبول نہیں کیا اور اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی بنیاد پر پوری فلسطینی قوم کو ملیامیٹ کرنے کے درپے ہو گیا چنانچہ اسرائیل کی مزاحمت اور فلسطین کے مقبوضہ علاقے واگزار کرانے کیلئے فلسطینیوں کی مختلف حریت تنظیمیں جنم لیتی رہیں اور اپنی آزادی کیلئے جانیں نچھاور کرتی رہیں۔ ان میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کے لیڈر یاسر عرفات اور لیلیٰ خالد کی اسرائیل کیخلاف گوریلا کارروائیاں تحریک آزادی فلسطین کو عالمی سطح پر اجاگر کرتی رہیں۔ اسی طرح فلسطینی تنظیم فاتح کی جدوجہد آزادی یادگار رہی اور پھر 1987ء میں امام شیخ احمد یٰسین کی قیادت میں تشکیل پانے والی حریت تنظیم حماس اپنی تشکیل سے اب تک فلسطین کی آزادی کیلئے اسرائیلی فوجوں سے برسر پیکار ہے جسے 2006ء میں باقاعدہ ایک سیاسی جماعت کے طور پر تسلیم کیا گیا مگر اقوام متحدہ کی پابندیوں کی زد میں آکر حماس پر عالمی دہشت گرد تنظیم کا لیبل لگ گیا۔
گزشتہ سال 8 اکتوبر کو حماس نے درحقیقت اسرائیلی فوجوں کے جاری مظالم کے ردعمل میں کشتیاں جلا کر اسرائیل پر میزائل حملے کئے جس کے بعد سے اب تک اسرائیل نے غزہ پٹی اور دوسرے فلسطینی علاقوں کو عملاً قبرستان میں تبدیل کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ اگرچہ فلسطین اتھارٹی کے صدر محمود عباس اور وزیراعظم محمد مصطفی حریت تنظیم حماس کو فلسطینیوں کی نمائندہ تنظیم نہیں سمجھتے تاہم اس وقت یہی واحد تنظیم ہے جو اسرائیلی فوجیوں کا بے جگری کے ساتھ مقابلہ کر رہی ہے اور اسرائیل کو امریکہ‘ برطانیہ سمیت استعماری طاقتوں کی حربی کمک و معاونت حاصل ہونے کے باوجود اسکی مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہے جبکہ 8 اکتوبر سے اب تک کے ساڑھے آٹھ ماہ کے دوران اسرائیل کی ننگ انسانیت وحشیانہ بمباری کے نتیجہ میں 40 ہزار کے قریب فلسطینی باشندے بشمول خواتین اور بچے شہید ہو چکے ہیں‘ ہزاروں فلسطینی زخمی ہو کر اپاہج بن چکے ہیں اور پوری غزہ پٹی میں کوئی ہسپتال‘ کوئی تعلیمی ادارہ‘ کوئی کمیونٹی سنٹر‘ کوئی بازار اور امدادی مراکز سمیت کوئی عمارت اصل حالت میں برقرار نہیں رہی۔ یہ سارا علاقہ عملاً کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے جہاں انسانی خون اور انسانی جسموں کے لوتھڑوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ ایسی وحشت و بربریت کی اس روئے زمین پر اور کوئی مثال موجود نہیں جس نے خاندانوں کے خاندانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا ہے اور زندہ بچنے والے انسان بھی بے یارومددگار پڑے اپنی موت کا انتظار کر رہے ہیں۔
انسانیت کے ناطے سے اس بار یہ مثبت سوچ ضرور پیدا ہوئی کہ دنیا بھر میں اسرائیلی وحشت و بربریت کیخلاف آوازیں بلند ہوئیں اور بالخصوص مغربی‘ یورپی ممالک میں ہر مکتبہ زندگی کے لوگوں نے احتجاجی جلسے‘ مظاہرے کئے اور ریلیاں نکالیں جبکہ احتجاج کا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جنگ بندی کیلئے چار قراردادیں پیش ہوئیں جنہیں امریکہ نے ویٹو کیا جبکہ یو این جنرل اسمبلی نے اسرائیلی کارروائیوں کی مذمت کے ساتھ ساتھ فلسطین کو بطور آزاد و خودمختار ریاست تسلیم کرنے کی قرارداد بھی منظور کی۔ اب تک دنیا کے 143 ممالک فلسطین کو تسلیم کر چکے ہیں جن میں حال ہی میں فلسطین کو تسلیم کرنے والے تین ممالک ناروے‘ آئرلینڈ اور سپین بھی شامل ہیں۔ اسکے باوجود امریکہ اور اسکے نیٹو اتحادی ممالک اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں اور پوری ڈھٹائی کے ساتھ اسرائیلی فوجیوں کی ننگ انسانیت کارروائیوں کی حمایت کر رہے ہیں۔
ان کارروائیوں کیخلاف ہی عالمی عدالت انصاف نے گزشتہ ہفتے اسرائیلی وزیراعظم اور وزیر دفاع کے وارنٹ گرفتاری جاری کئے تھے جبکہ اب عالمی عدالت انصاف نے اسرائیل کو دوٹوک الفاظ میں رفح اور غزہ سمیت فلسطینی مقبوضہ علاقوں میں فوجی اپریشن فی الفور بند کرنے کا حکم دیا ہے۔ وزیراعظم پاکستان میاں شہبازشریف نے عالمی برادری سے عالمی عدالت انصاف کے اس فیصلے پر عملدرآمد کرانے کا تقاضا کیا ہے۔ یہ صورتحال انسانی حقوق کے چیمپئن عالمی اور علاقائی اداروں اور عالمی قیادتوں کیلئے بھی ایک چیلنج ہے۔ اگر اسرائیلی جنونیت کے خلاف اقوام متحدہ اور عالمی عدالت انصاف کی اتھارٹی تسلیم نہ کی گئی تو پھر تیسری عالمی جنگ کی راہ ہی ہموار ہوگی جو اس پورے کرہ ارض کی تباہی پر منتج ہوسکتی ہے۔
جنگ بندی کیلئے عالمی عدالت انصاف کے فیصلہ پر امریکی‘ اسرائیلی رعونت
May 26, 2024