ملک عزیز میںخلق خدا جسے عرف عام میں عوام بھی کہا جاتا ہے کا کوئی پرسان حال نہیں۔معلوم نہیں کہ کس جرم کی سزا پائی ہے کہ عام آدمی کی پریشانیوں میں دن بدن اضافہ ہو رہاہے۔عوام مسائل کے منجھدار کے بیچ غوطے کھا رہی ہے۔ ان کے نہ تو کوئی بنیادی حقوق ہیںاور نہ ہی ان کے تحفظ کا کوئی نظام ہے۔صحت،تعلیم، تحفظ اورصاف پانی ایسی بنیادی سہولتیں تو دور کی بات ہے ایک عام خاندان کے لیے دو وقت کا کھانا بھی میسر نہیں۔گیس بجلی کے بلوں نے الگ سے اودھم مچایا ہوا ہے۔مہنگائی کا طوفان ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ہر بجٹ میںٹیکسوں کا بوجھ متوسط درجہ کے ملازم پیشہ طبقہ پر ڈال دیا جاتا ہے۔ اشرافیہ ، مراعات یافتہ اور وسائل سے مالا مال طبقہ پر کوئی بوجھ نہیں۔ ان کے لیے صحت۔ ٹرانسپورٹ اور دیگر نظام زندگی الگ ہے۔عوام تو مسائل میں دھنسے ہوئے ہیں لیکن یہ لوگ زندگی کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔بدقسمتی یہ ہے کہ حکمران بھی اسی طبقہ میں سے ہیں۔چونکہ انہوں نے اپنی زندگی میں کبھی بھوک اور فاقہ کا ذائقہ نہیں چکھا اس لیے نہ انہیں فاقہ کش کی نفسیات کا علم اور نہ ہی اس کے مسائل کا۔سبزشیشہ کی عینک لگا کر انہیں ہر طرف ہرا نظر آتا ہے۔ ٹیکسوں کی صورت میں عوام کا خون نچوڑ کر اللے تللے کیے جا رہے ہیں۔غلطی عوا م کی بھی ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو ہی اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں۔عام آدمی اگر غلطی سے الیکشن میں حصہ لے بھی لے توپیٹی بھائیوں کے ووٹ سے محروم ہی رہے گا۔ترقی یافتہ ممالک میںاداروں اور محکموں کی بنیادی ذمہ داری ایسی پالیسیاں بنانا ہوتا ہے جن سے عوام کے لیے آسانیاںپیدا ہوں لیکن پاکستان میںانسانوں کے روپ میں ایک مخلوق ان پالیسیوں سے عوام کی زندگی عذاب بنا دیتی ہے۔’’ منتخب ہو کر عوام کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کریں گے‘‘ یہ جملہ سن سن کر کان پک گئے۔پون صدی گزر گئی کئی آئے اور کئی گئے لیکن عام آدمی مسائل کی چکی میں پس رہا ہے،تاجر اسے لوٹ رہا ہے ، سرمایہ دار اسی کے مال سے تجوریاں بھر رہا ہے چور، ڈاکو ،راہزن ،لٹیرے بھی اسی کی تاک میں ہیں۔شاعر پکار اٹھا کہ
اس مال کی دھن میں پھرتے ہیں
تاجر بھی کئی راہزن بھی کئی
ہے چور نگر ، یاں مفلس کی
گر جان بچی تو آن گئی
عام آدمی سرکاری محکموں کی راہداریوں میںجوتیاں گھسا رہا ہے، خون پسینے کی کمائی بلو ں اور ٹیکسوں کی مد میں لٹا دیتا ہے اور تو اور چالان بھی غریب کا ہی ہوتا ہے امیر آدمی کی پجیرو کی خلاف ورزیاں کسی کو نظر نہیں آتیں۔عام آدمی اگر بیمار ہو جائے توسرکاری ہسپتالوںمیںبغیر علاج کے زندگی سے جان چھڑا لے گا۔حضرت علامہ نے صحیح فرمایا
خلق خدا کی گھات میں رند و فقیہ و میر و پیر
تیرے جہاں میں ہے وہی گردش صبح و شام ابھی
تیرے امیر مال مست، تیرے فقیر حال مست
بندہ ہے کوچہ گر د ابھی، خواجہ بلند بام ابھی
سانحہ یہ ہوا کہ پالیسی سازوں کی عوامی مسائل کے حال کرنے کا نہ کوئی ارادہ ہے اور نہ کوئی نیت۔جب یہ حقیقت واضح ہے کہ پالیسی ساز عوامی مسائل کی شدت سے ناواقف ہیں اور ان کے چاپلوس ’’ سب اچھا ہے‘‘ کی رپورٹ دے رہے ہیں تو پھر ان سے اصلاح احوال کی امید کیسی۔عام آدمی یہ توقع بھی رکھتا ہے کہ میڈیا اس کی آواز اقتدار کے ایوانوں تک پہنچائے گا۔لیکن اسے اس وقت شدید مایوسی ہوتی جب وہ دیکھتا ہے کہ یہ حضرات بھی اپنے مفادات کی زنجیروں میں بندھے ہوئے ہیں۔ہر روز نئے نئے موضوعات پر مباحثے ہی مباحثے کیے جا رہے ہیں۔انہیں کوئی بتائے کہ اور بھی دکھ ہیں زمانے میں سیاست کے سوا۔
دور حاضر کا سب سے بڑا مسئلہ خود ساختہ مہنگائی ہے جس کو قابو کرنے میں حکومت مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔اشیائے خورد و نوش و دیگر اشیاء کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کا کوئی موثر نظام نہیںہے۔اگر کہیں ہے بھی تو وہ مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔منہ زور اوربددیانت تاجرطبقہ اس کمزوری کا فائدہ اٹھا رہا ہے اور اپنی مرضی کے نرخ لگا رہا ہے۔عجب صورت حال ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھیں تو کرائے بڑھ جائیں اور قیمتیں کم ہوں توکرائے کم نہیں کیے جاتے۔گندم کی قیمت پچاس فی صد تک کم ہو ئی لیکن آٹا اور میدہ سے تیار ہونے والی بیکری مصنوعات کی قیمتیں کم کروانے کے لیے کیا آسمان سے کوئی مخلوق آئے گی۔اللہ پاک کا شکر ہے کہ موسمی پھل اور سبزیوں کے نرخ کبھی کبھی زمین پر آجاتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر بروقت فروخت نہیں ہوں گے تو ضائع ہو جائیں گے۔اگر یہ صورت نہ ہوتی تو بے ایمان ذخیرہ اندوز ان کو گوداموں میںذخیر ہ کر لیتے اور ایک تربوز ایک ہزار روپے میں فروخت ہو رہا ہوتا۔حکومت کہاں کھڑی ہے۔یہ ایک مسئلہ ہے ابھی تو اس مسائلستان میں مسائل کی طویل فہرست ہے۔ارباب اختیار توجہ کریں یہ نہ ہو کہ مخلوق مٹ جائے۔اب وقت ہوا چاہتا ہے کہ خلق خدا کی گھات میں بیٹھے درندوں کے شکار کی کوئی تدبیر کی جائے۔