بلوچستان شہداء فورم،مکروہ بھارتی عزائم اور بارڈر مینجمنٹ 

سنجیدہ حلقوں کے مطابق یہ امر کسی تعارف کا محتاج نہیں کہ پچھلے کچھ دنوں میں بھارتی میڈیا نے آزاد کشمیر میں پیش آنے والے واقعات کو بنیاد کر جو غلیظ اور بدبودار کردار ادا کیا ہے اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔واضح وزیر دفاع راج ناتھ،بھارتی ویر خارجہ جے شنکر اور  یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی نے پاکستان  کے خلاف زہر ااگلنے کی انتہا ء کر دی۔بد قسمتی سے اس ضمن میں خود پاکستان کی ایک سیاسی جماعت نے بھی کوئی کثر نہیں چھوڑی۔دوسری جانب پاک،عسکری ترجمان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اسے بدقسمتی ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ افغان حکومت خاصے عرصے سے اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہی ہے اور اس ضمن میں دونوں ممالک کے درمیان طے پانے والے بارڈر مینجمنٹ کے اصول وضوابط کی خلاف ورزیاں جا ری ہیں۔اسی ضمن میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ شہداء کے ورثاء نے سپریم کورٹ سے فوجی عدالتیں بحال کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہداء  ہماری عزتء، عظمت اور ہماری آن و شان ہیں لہذا فوجی عدالتوں کو کام جاری رکھنے دیا جائے کیوں کہ اس سے شہداء  کے ورثاء کو فوری انصاف ملے گا۔ اس ضمن میں  چیف جسٹس آف پاکستان اس فیصلے پر نظر ثانی کریں اور عدالت عظمیٰ یہ فیصلہ واپس لے کیوں کہ ملٹری کورٹس وقت کی اہم  ضرورت ہیں اور پیر کو سپریم کورٹ میں اس حوالے سے درخواست دائر کرینگے۔ ان خیالات کا اظہار شہداء فورم کے زیر اہتمام شہداء کے ورثاء نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ یاد رہے کہ شہداء کے ورثاء میں نوابزادہ جمال ریئسانی، حاجی ثناء اللہ خان، رحیم اللہ، وزیر فرمان الہٰی، انور زیب، فوزیہ، محمد جمشید و دیگر شامل تھے۔ شہداء کے ورثاء نے کہا کہ ہمارا یہاں جمع ہونے کا مقصد یہ ہے کہ ہم شہداء فورم کے پلیٹ فارم سے ملٹری کورٹس کی بحالی کیلئے تحریک چلائیں گے۔انہوں نے کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ جاسوسی نیٹ ورکس اور دشمن قوتوں کے مذموم عزائم سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے قیام سے ہی ایک موثر ہتھیار کے طور پر رہا ہے، ملکی سلامتی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہماری درخواست ہے کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کو ہر قیمت پر ملک و قوم کی سلامتی کے ضامن کے طور پر بحال کیا جائے۔ انھوں نے کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب بھارتی دہشت گرد کلبھوشن یادیو کا کیس بھی عالمی عدالت میں زیرسماعت ہے تو ایسے میں اس کی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کو اس کی اصل صورت میں بحال کیا جانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے  اسی تناظر میں غیر جابندار مبصرین نے کہا ہے کہ شہداء کے خاندان متقاضی ہیں کہ اس ایکٹ کو بحال کیا جائے تاکہ شہداء کے قاتلوں کو منطقی انجام تک پہنچایا جا سکے۔ یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ اس وقت ملک کے غیرمعمولی حالات ہیں اور ایسے حالات غیرمعمولی اقدامات کے متقاضی ہیں۔ اسی حوالے سے یہ امر بھی اہم ہے کہ فوجی عدالتوں اور آفیشلؤ سیکرٹ ایکٹ کو غیرفعال کرنے سے ملک میں ایک بار پھر دہشت گردی کی نئی لہر نے جنم لیا ہے جو کہ ہرگز قابل قبول نہیں ہونی چاہیے۔
کسے معلوم نہیں کہ ہماراملک موجودہ حالات میں دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں اور جاسوسو ں کے مقدمات کو سول عدالتوں میں طویل مدت تک لٹکانے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ مبصرین کے مطابق  یہ ایکٹ 1952 سے بہترین کام کر رہا تھالہذ ا  ملک و قوم کی سلامتی کیلئے اسے دوبارہ بحال کیاجاناوقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس ضمن میں یہ بات بھی اہم ہے کہ شہدا پاکستان  کا خون راہیگاں نہیں جانا چاہیے لہذا
ملکی سلامتی کو کسی طور پر داؤ پر نہ لگایا جائے اور شہداء کے قاتلوں کو  بہر صورت منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔ کسے معلوم نہیں کہ ہمارے شہداء نے ملکی دفاع و سلامتی کیلیے لازوال قربانیاں دی ہیں اور یہ ہمارے ملک کا قیمتی ترین سرمایہ ہیں۔ اس تما م صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے سنجیدہ حلقوں نے توقع ظاہر  کی ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان اس فیصلے پر نظر ثانی کریں گے اور عدالت عظمی یہ فیصلہ واپس لے گی۔
اسی تناظر میں مبصرین کی رائے ہے کہ جان کی قربانی سے بڑی کوئی دوسری قربانی نہیں ہوتی اور اس ضمن میں ہمارے شہداء  وطن عزیز کی سلامتی اور دفاع کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں لہذا ملک دشمن عناصر کو یہ اجازت نہ دی جائے کہ وہ اپنے وقتی مفادات کی خاطر ہمارے خون کے ساتھ کھیلے۔
اس تمام منظر نامے کا جائزہ لیتے غیر جانبدار تجزیہ کاروں نے رائے ظاہر کی ہے کہ تیسری دنیا کے اکثر ممالک کی طرح اگرچہ  وطنِ عزیز  میں بھی سبھی حکومتی اور سیاسی معاملات مثالی حد تک صحیح نہیں ہیں اور ان میں بہتری کی گنجائش بہر طور موجود ہے مگر اس تلخ حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان اور قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف ڈس انفارمیشن پھیلانے والے یہ عناصر غالباً کسی مخصوص ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں کیونکہ گذشتہ کافی عرصے سے نظریہ پاکستان،ریاست اور قومی سلامتی کے اداروں کہ ہدفِ  تنقید بنانا دانشوری،ترقی پسندی  اور انسان دوستی کی واحد علامت بن گیا ہے اور یہ طرزِ عمل وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید پختگی اختیار کرتا جا رہا ہے حالانکہ مناسب اور تعمیری سوچ غالباً یہ ہونی چاہیے کہ خود احتسابی اور خود مذمتی کے مابین حدِ فاصل کو ملحوظِ  خاطر رکھا جائے اور صحافتی،سماجی اور سیاسی اکابرین اپنا سارا زورِ خطابت نظریہ پاکستان اور اس کے محافظ اداروں کو مطعون کرنے کی بجائے (پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ) کی سوچ کے تحت اپنی توانائیاں تعمیری ڈھنگ سے  صرف کریں۔۔تو قع کی جانی چاہیے کہ اعلیٰ عدلیہ تما م تر زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اس جانب سنجیدہ توجہ دے گی۔

ای پیپر دی نیشن