موسمیاتی تغیر و تبدل، انسانی زندگی پر اثرات و اقدامات

May 26, 2024

نبیلہ اکبر

انسانی زندگی کی ابتداء سے ہی انسان کو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل و اثرات کی وجہ اس کے حل کے لیے اقدامات کرتا چلا آ رہا ہے۔ پہلے انسان غاروں میں رہتا تھا اور اپنی بھوک مٹانے کے لیے قدرتی پیداوار سے پیٹ بھرتا تھا جیسے جیسے انسان میں شعور اجاگر ہوا تو اس نے اپنے اردگرد موجود حالات کو اپنے لیے موافق کرنے کے لیے ترقی کی۔ پھر اسی انسان نے ماحول میں مثبت اور منفی تبدیلیاں رونما ہونا کو ضروری سمجھا۔ ماحولیات کا سنجیدگی سے تجزیہ دراصل فطرت کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے ہی ایک اہم ترین موضوع ہے۔ اس موضوع پر دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر تجربات و مشاہدات ہوتے رہے اور مزید جاری ہیں۔ پوری دنیا اس موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے اثرات کی لپیٹ میں ہے اور ان تباہ کن بارشوں اور سیلاب کے خطرے کی علامت کا جائزہ لینے اور اس سے نپٹنے کے لئے اقدامات کر رہی ہے۔ پاکستان ہی صرف موسمیاتی مسائل کا شکار نہیں بلکہ پوری دنیا اس وقت بدلتی قدرتی آفات کی تباہکاریوں سے گزر رہی ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں جو بلا تخصیص رنگ و نسل، ملک و قوم اور کرہ ارض کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں۔ کرہ ارض کے ہر نظامِ قدرت کے عطا کردہ فطری عطیات اور وسائل پر ہی انسانی زندگی کا دارومدار ہے۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ انسان نے اس قدرت کے بیش بہا عطیہ جات کی اہمیت اور افادیت کو نظر انداز کر دیا اور انسان کے اس رویے نے اشرف المخلوقات اور حیوانات و نباتات کو بہت ہی سنگین اور تشویشناک حالات میں مبتلا کر دیا ہے۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں میں سب سے زیادہ خطرہ رکھنے والے ممالک کی لسٹ میں شامل ہے۔ پاکستان کو بھی اس وقت شدید ماحولیاتی آلودگی کا سامنا ہے فضائی آلودگی کا سامنا ہے۔ پاکستانی عوام اس وقت سیاسی ، اقتصادی و سماجی مسائل کے ساتھ ساتھ گلوبل وارمنگ کا بھی سامنا ہے۔ پاکستان اس وقت گرم آب و ہوا کی وجہ سے موسمیاتی تغیر کا شدید سامنا ہے یہ ایک قدرتی وجہ ہے لیکن کچھ انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے موسمیاتی تغیر و تبدل سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں اگر ان مسائل پر توجہ دی جائے تو عالمی سطح پر ماحول پر آلودگی کی وجہ سے ماحول کو ممکنہ نقصان سے بچایا جاسکتا ہے۔ اور کونسی ایسی ترجیحات ہیں جن پر توجہ مبذول کروانے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے ہم ماحول کو سمجھیں جس ماحول میں ہم رہتے ہیں جس طرح ہم سانس لیتے ہیں۔ ہم خود ہی جائزہ لے سکتے ہیں کہ انسان نے اسے خود کتنا صاف رکھا۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے لیے کیا ایسے اقدامات کیے جس سے ہم اپنا خود کا بھی احتساب کر سکیں۔ سب سے بڑا اور اہم مسئلہ انسانی آبادی میں بے پناہ اضافہ ہے۔ انسان نے اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے سر سبز جنگلات کاٹ دئیے۔ سونے جیسے کھیت کھلیان کو بھی کاٹنا شروع کر دیا۔ روس میں 49 فیصد جنگلات ہیں، انڈیا کے پاس 24 فیصد ، چین پاس 22 فیصد ، ترکی پاس 15 فیصد اور بنگلہ دیش کے پاس بھی جنگلات 11 فیصد ہے اور پاکستان میں جنگلات صرف 2 فیصد رقبے پر محیط۔ مثال کے طور پر زیادہ دور مت جائیں چھانگا مانگا کے جنگلات کو ہی دیکھیں، میانوالی اور خانیوال ، پیروال سمیت کئی علاقوں کے جنگلات ہماری آنکھوں کے سامنے ختم ہو گئے اور ہم خاموش تماشائی بنے رہے بلکہ ہم جنگلات کاٹتے گئے اور ماحولیاتی توازن میں بگاڑ پیدا ہوتا گیا۔ درخت ناصرف آپ کو آکسیجن فراہم کرتے ہیں بلکہ صحت مند اور نیچر سے قریب بھی رکھتے ہیں۔ درخت نا صرف آپ کے آس پاس رہ کر صرف آکسیجن فراہم کرنے ساتھ آپ کے مزاج کو بھی درست رکھتے ہیں۔ ہم نے فیکٹریوں کے فضلہ کا مناسب انتظام نہیں کیا اور نا ہی معیاری سپرے کا استعمال کیا بیج کی کوالٹی کے معیار کو برقرار نا رکھا۔ روزمرہ کے استعمال کی اشیاء سے زندگی کو آسان بنانے کے لیے پلاسٹک کے برتنوں کا سہارا لیا، موٹر سائیکلوں، رکشا اور گاڑیاں کے بے جا استعمال سے سڑکوں پر نکلتا دھواں اور ان گاڑیوں کا شور بھی ماحول کو خراب کرتا چلا گیا۔ گاڑیوں سے نکلنے والے دھویں نے بھی انسانی صحت کو متاثر کیا سانس کی بیماریوں مبتلا کیا، دل کے امراض اور کینسر جیسے موذی مرض دن بدن اضافے کا سبب بنے۔ نئی زمینوں کو کاٹ کر ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنا دیں شہروں کو پھیلا دیا گیا، پھل دار درخت اور پھولدار پودوں کو کاٹ کر رہائشی علاقے آباد کیے جس کا نقصان یہ ہوا دیہی علاقے دور ہوئے زرخیز زمین ختم ہوئی کسان کو دوبارہ سے بنجر زمین پر محنت کرنی پڑی ، منڈی سے اجناس دور ہونے کی وجہ سے اس پر لاگت زیادہ آنے لگی۔ جو ضروریات زندگی قریب تھی وہ نئی آباد کاری کی وجہ سے دور ہوئی پیدل اشیاء کی رسائی اب گاڑیوں پر ہونے لگی۔ وہ درخت جو ہماری زمین کے لیے موزوں تھے انھیں کاٹ دوسرے درخت لگانے کی کوششیں کیں اس تغیر و تبدل میں جاندار چرند پرند کو الگ نقصان پہنچا۔ شہر کے بیچوں بیچ گزرنے والے دریاؤں کے کناروں پر درختوں کی بہتات ہونی چاہیئے تھی تاکہ زمین کٹاؤ سے بچا جا سکتا لیکن جو درخت موجود تھے وہ بھی کاٹ دئیے گئے جس سے شہری آبادیوں میں بھی سیلابی ریلے آنے شروع ہوئے۔ 
حکومتوں کی طرف سے موسم الرٹ بار بار جاری ہوئے صرف کاغذوں کی حد تک لیکن کوئی حکمت عملی نظر نہیں آئی۔ ہم نے اپنی صدیاں سے چلی آرہی روایات پر کوئی توجہ نہ دی جس وجہ سے غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ قدرتی ماحول کو صنعتی ماحول نے اس ماحول کو بہت بری طرح متاثر کیا، درختوں کی کٹائی، دریاؤں، ندی نالوں اور نہروں میں کچرے کے ذخیرے، فصلوں کی کاشت کی باقیات نے جو ماحول کے لیے ایک چیلنج بن گیا ہے۔ مختلف علاقوں میں بے پناہ فاضل مادوں کے اخراج سے فضائی آلودگی کی بڑی وجہ بنی لوگوں کا سانس اور مختلف بیماریوں کا شکار ہونا تھا۔ صاف پانی کی سطح نیچے گرنے سے پانی کی فراہمی میں کمی ہوئی بمیں صاف اور تازہ ہوا ملنا ناممکن ہو گیا آج بھی دنیا میں کروڑوں لوگ صاف پانی کے پینے سے محروم ہیں۔ صاف پانی کی جانب بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ ہماری مؤثر پلاننگ نہ ہونے کی وجہ سے کئی لوگ پانی میں ڈوب رہے ہیں اور کہیں پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ٹڈی دل کا حملہ جس سے کسانوں کی فصلوں کا بہت بڑا نقصان ہوا، گرمیوں ٹھنڈے علاقوں سے آنے والے پرندوں کے لیے درخت کاٹ دینے سے اور پرندوں کا شکار کرنے سے بھی نقصان پہنچا، کرونا وائرس عالمی وباء￿  بن کر ابھری رفتہ رفتہ بیماری انسانی صحت پر اثر انداز ہوئی ہم نے اپنی آسائش کے لئے گاڑیوں کا بے جا استعمال کیا تو اس سے نکلنے والے کاربن ڈائی آکسائیڈ ہوا نے پانی ، زمین اور انسان کو آلودہ کیا، مشینی دور کے مشینوں کی ایجاد نے انسان کے ارد گرد ماحول کو برباد کر دیا ماحولیاتی توازن میں بگاڑ پیدا ہوگیا ، موسم شدت اختیار کر گئے لمبے عرصے پر گرمی اور سردی کے موسم آ گئے۔ بارشیں معمول سے زیادہ ہونے لگیں اور خشک سالی والے علاقے مزید خشک سالی شکار ہوئے آخر کار انسان نے ہی اپنے ماحول کو خود گندا کیا اور کچرے کے ڈھیر لگا دیئے کچرے کا مؤثر انتظام نہ ہوا اور پھر جب ہم نے کچرے کو نظر انداز کرنا شروع کر دیا فضا آلودہ ہو گئی تو فضائی آلودگی بیماریوں کی صورت میں ہمارے اندر سرائیت کر گئی۔ اس موسمیاتی تغیر و تبدل سے رونما ہونے والی تبدیلیوں کو بیان کرنے کا مقصد ماحولیات کی اہمیت کی جانب دنیا کی توجہ مبذول کرانا اور ماحولیات کی بہتری اور اس کے لیے کیے جانے والے اقدامات کو مزید فعال بنانا ہے. ان موسمیاتی تبدیلیوں کو اجاگر کرنے ماحول کی آلودگی اور وسائل کے بے دریغ استعمال سے محفوظ رکھنا ہے۔ بحثیت قوم ہر پاکستانی کو گلوبل وارمنگ کے خطرات سے بچنے کے لیے ماحول کی بہتری کے لیے اس کوشش میں حصہ ڈالنا ہوگا ساتھ ساتھ بہترین اور محفوظ مستقبل کے لیے ماحول دوست رویے بھی اپنانے ہوں گے.مزید اس کے ساتھ ساتھ حکومت کے ساتھ مل کر عوام دوست پالیسیاں بنانی ہوں گی۔ شہروں کو پھیلانے سے روکنا ہو گا بلکہ نئی عمارتوں کی تعمیر کرنے کی بجائے موجود عمارتوں کو اونچا کرنا چاہئے فلیٹ سسٹم کو فروغ دے تاکہ محدود وسائل کو زیر استعمال لایا جائے۔ شہری آبادیوں میں گزرنے والے گندے پانی کے نالوں کی صفائی کو یقینی بنایا جائے۔ دونوں اطراف بے تحاشا درخت لگائے جائیں جو فضاء کو آلودہ ہونے میں مدد دے۔ فیکٹری ایریا کو شہر سے الگ کیا جائے تاکہ فوسل مادوں کے اخراج کو موئثر طریقے سے تلف کیا جائے۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ سرکاری طور پر نرسریاں بنائے تاکہ لوگوں کو کم قیمت پر پودے فراہم کیے جائیں اور وہ زیادہ سے زیادہ پودے لگائیں اپنے گھروں میں، گلی محلوں میں ، سڑکوں پر ، نہروں کے کنارے پر۔ نئی نسل کو کچن گارڈننگ اور پودے لگانے کا شعور بیدار کیا جانا چاہیے۔ قومی اور سرکاری عمارات میں پودے لگائیں جائیں اور پودے لگاتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ وہی پودے لگائیں جو پودے ماحول اور زمین کی افادیت کے مطابق ہوں جو اس جگہ پر پروان چڑھ سکتے ہوں۔ بلڈرز سرکاری عمارتوں کو بنانے کے لیے
 آرڈر لیتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ درختوں کو محفوظ کیا جائے۔ قومی سطح پر ایسی پلاننگ کی جائے کہ آبادی کے تناسب سے پبلک ٹرانسپورٹ فراہم کی جائے تاکہ سڑکوں پر گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں میں کمی واقع ہو اور ماحول آلودہ ہونے سے بچ جائے اس اقدام سے ایک بہتر کل کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے اپنے ماحول کو خراب ہونے سے بچائیں اپنے اور اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے ایک درخت لگائیں اور اس کی حفاظت کریں۔ میری حکومت پاکستان سے درخواست ہے موسمیاتی تغیر و تبدل، اثرات اور اقدامات پر نئے سرے سے ترامیم کے بعد نصاب میں شامل کیا جائے جو مواد نصاب میں شامل ہے وہ بہت کم ہے بلکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے مسائل کا اْجاگر کیا جائے بہتر اور مؤثر اقدامات بھی ہونے چاہیئے اور ہر پاکستان کے شہری کو تفصیلی بتایا جائے بلکہ عمل درآمد کے لیے قانون سازی کی جائے۔ نہیں تو ہم دنیا سے بہت پیچھے رہ جائیں گے ہمیں ترجیحی بنیادوں پر مل جل کر کام کرنا ہو گا عوام دوست پالیسیوں میں ہمیں انسانی حقوق کی تنظیموں اور این جی اوز سے بھی مدد لینی چاہیئے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں پر کام کرنے والے بہت سے لوگ ہیں ان کے پاس بہت موئثر پراجیکٹ ہیں جن سے فائدہ اٹھانا چاہیے ایسے لوگوں کو موقع دیں جو اس وقت کام کر رہے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں خدارا اپنے لیئے اپنے بچوں کے لیئے اپنے ملک کے لیے اپنی عوام کے لیے اپنے حصے کی کوشش کریں۔کیونکہ صاف ستھرا ماحول ہمارا بنیادی حق ہے اور ہمیں اپنے حق کے لیے جدو جہد کرنا ہو گی۔

مزیدخبریں