با اختیار عورت’’وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘‘

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ 

اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
عورت کی عزت اور احترام پر اسلام بہت واضح پیغام دیتا ہے لیکن اس کے باوجود کیا وجہ ہے کہ آج کی عورت بیٹی سے ماں تک روز کسی نہ کسی درندگی کا شکار ہوتی نظر آتی ہے۔میں کسی کا نام نہیں لوں گی اور نہ ہی میرے اندر اتنی ہمت ہے کہ میں ان واقعات کو اپنی زبان سے دہرا سکوں لیکن اگر ان واقعات کے مسائل کے حل کی بات کی جائے تو میرے نزدیک اس مسئلے کا حل ایک باختیار عورت ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کس طرح سے ہم اپنی عورت کو با اختیار کر کے ان مسائل سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں ؟ ریسرچ کے مطابق بات کروں تو تھیومسن ریوٹر فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق پاکستان عورتوں کے لیے چھٹا بڑا خطرناک ملک ہے - اس کے علاوہ ورلڈ بینک ڈیٹا کے مطابق پاکستان میں ہر تین میں سے ایک عورت یہ رپورٹ کرتی ہے کہ اس کے ساتھ جسمانی تشدد ہوا ہے اور جسمانی تشدد کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ اس کا اپنا شوہر ہے۔ ان مسائل پر بات کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ جب تک ان مسائل پر بات نہیں کروں گی تب تک ان کا حل تلاش کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے۔ اگر کچھ عرصہ قبل نظر دوڑائی جائے تو اس طرح کے واقعات آئے روز رونما ہوتے تھے لیکن رپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے وہ واقعات نظر عام پر نہیں آ پاتے تھے۔ ان واقعات میں اگر ہم سوشل میڈیا کا رول دیکھیں تو آج سے کچھ عرصہ پہلے موٹر وے پر جو واقعہ پیش آیا اس میں سوشل میڈیا کا بہت بڑا کردار ہے۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے اس واقعہ کی کھلے عام تشہیر کی گئی جس کی وجہ سے ریاست پر پریشر آیا اور بر سر اقتدار افراد کو اس معاملے کو سنجیدگی سے حل کرنا پڑا۔ اس واقعے سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے ایک عورت کو سوشل میڈیا پر اپنے رابطے کو بڑھانا ہوگا تاکہ اس کی آواز کو سنا جا سکے۔ دوسری سب سے بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہماری عورت فائننشل سسٹم کے بارے میں جانتی ہی نہیں ہے پاکستان میں صرف 21 فیصد لوگ ایسے ہیں جو بینکنگ سے منسلک ہیں جس میں سے صرف 7 فیصد خواتین ہیں ایک عورت جب فائننشل سسٹم سے منسلک ہی نہیں ہوگی تو وہ اپنے مالی حالات کو درست کرنے کے لیے لون کیسے لے گی جب وہ بینکنگ سسٹم کے بارے میں جانتی نہیں ہوگی تو وہ کس طرح سے اقتصادی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہے ؟اگر میں دہشتگردی کی بات کروں تو دہشتگردی میں ہمارے جو سکولز ہیں وہ ان کا ٹارگٹ ہوتے ہیں عورتوں کی تعلیم کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے ملالہ یوسف بھی ان کے اسی ٹارگٹ کا نشانہ بنی یہ دہشتگردی ہماری عورت کو با اختیار بننے سے روک رہی ہے دہشت گردی ہمیشہ ہماری تعلیمی نظام میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہے کیونکہ تعلیم سے ہی ایک عورت کی خوشحالی اور ترقی ممکن ہے۔ تعلیم عورت کے لیے بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنا کے مرد کے لیے- حدیث میں اتا ہے کے"علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے" یعنی علم کے حصول کی تلقین ہمیں آج سے 1400 سال پہلے ہی کر دی گئی تھی‘‘ جب نپولین سے پوچھا گیا کہ آپ کے دور میں ایسی کون سی چیز تھی جس کی ضرورت آپ کو سب سے زیادہ پیش ائی جس کے جواب میں نپولین نے عرض کیا کہ کسی بھی قوم کی ترقی کا دارومدار اہل علم ماؤں کے اوپر ہوتا ہے یعنی پڑھی لکھی مائیں اتنی اہمیت کی حامل ہے کہ اس کے بغیر کوئی بھی قوم ترقی ہی نہیں کر سکتی۔ با اختیار عورت بننے کی راہ میں کم عمر کی شادیاں بی ایک بہت بڑی روکاوٹ کا باعث ہیں پاکستان کے اندر 21 فیصد لڑکیاں ایسی ہیں جن کی 18 سال سے کم عمر میں شادی کر دی جاتی ہے اور 3 فیصد لڑکیاں ایسی بی ہیں جن کی شادی 15 سے بی کم عمر میں کر دی جاتی ہے جس کی وجہ سے عورتوں کا با اختیار ہونا مشکل ہو رہا ہے کیونکہ جب ایک عورت کو اپنے حقوق کے بارے میں ہی نہیں پتا ہو گا اور وہ شادی کر کے کسی دوسرے گھر چلی جائے گی تو پھر اس کو دبایا جائے گا اور اس کی لاعلمی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کا حق مارا جائے گا۔ جب تک لڑکی میچورٹی کے اس لیول تک نہیں پہنچے گی کہ وہ اپنے تمام تر معاملات سے آگاہ ہو تب تک وہ اپنے حق کے لیے آواز بی نہیں اٹھا سکتی۔ اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے ان تمام تر مسائل کے حل کے لیے عمران خان کے دور حکومت میں نو بل پاس ہوئے جو کہ ہیومن رائٹس بل کھلاتے ہیں جس میں ایک زینب الرٹ بل،ڈومیسٹک ورک بل،لیگل ایڈ، جسٹس اتھارٹی بل اور بہت سے مختلف بل پاس ہوئے لیکن نتیجہ نہیں نکلا۔ 
میرے نزدیک ان سب مسائل کا اصل حل قانون سازی ہے جب قانون سازی ہوتی ہے تب جا کر مسائل حل ہوتے ہیں قانون ساز وں کو چاہیے کہ وہ ایسا قانون بنایا جائے کہ مجرم کو جلد از جلد قانون کے شکنجے میں لے کر اسے سزا دلوائی جا سکے۔ ہماری عدالتوں کا نظام اتنا مشکل ہے کہ بہت سارے لوگ تو کیسز رپورٹ ہی نہیں کرتے جب کیس رپورٹ ہی نہیں ہوگا تو اس مسئلے کا حل کیسے تلاش ہو گا، قانون سازوں کو چاہیے کہ وہ اس سسٹم کو اتنا آسان بنائیتا کہ کیسز رپورٹ ہونا شروع ہو جائیں جتنا زیادہ اس نظام کو آسان بنایا جائے گا اتنی زیادہ عورتیں با اختیار ہوں گی لیکن میں سمجھتی ہوں کہ عورت کو با اخیار بنانے کی ذمہ داری ریاست کے ساتھ ساتھ انفرادی طور پر بھی عائد ہوتی ہے۔ ہمارے معاشرے کو درحقیقت عورت کو عورت سمجھنا ہوگا یہ بھی ٹھیک ہے کہ ماں بہن بیٹی ہے لیکن سب سے پہلے وہ ایک عورت ہے اور اس عورت کے حقوق ہمیں اس کو دینے ہوں گے اگر اپ اپنے گھر کی عورت کو با اختیار بنائیں گے ان کا ساتھ دیں گے تو یقین جانیں معاشرے کی تمام عورتیں ایک دن اپنے حقوق سے آگاہ ہوں گی۔

ای پیپر دی نیشن