کالا قانون

پنجاب اسمبلی سے منظور ہونے والے ’’ہتک عزت‘‘ قانون پر پوری صحافی برادری سراپا احتجاج ہے۔ اس قانون کو جس عجلت سے پاس کیا گیا اس پر صحافتی تنظیموں کی جانب سے سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ پنجاب کی اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی نے بھی اس قانون کو مسترد کر دیا ہے۔ ببانگ دہل کہا ہے کہ وہ صحافی برادری کے ساتھ کھڑی ہے۔اگرچہ ہتک عزت کا قانون پہلے سے موجود ہے۔ پھر حکومت کو نیا قانون لانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ اس کی تہہ تک پہنچنے کی ضرورت ہے۔ آئین کا آرٹیکل9،  10A، 18اور 19اے شہریوں کو بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت دیتے ہیں۔ یعنی ان آرٹیکلز کی موجودگی میں کسی کے آزادیٔ اظہار رائے پر کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔ پنجاب حکومت کو اُس کے قانونی مشیروں نے جو غلط مشورے دئیے ،اُسی کا نتیجہ ہے کہ صوبے کی خاتون چیف منسٹر کو پوری صحافتی برادری کے زبردست احتجاج کا سامنا ہے۔ حکومت کبھی کوئی بازی نہیں جیت سکتی جب تک اُسے میڈیا کا ساتھ میسر نہ ہو۔ ٹینشن کی اس صورت حال اور ماحول میں حکومت اب کیا کرے گی۔ صرف قیاس کیا جا سکتا ہے ، تاہم صحافی برادری کا اس کالے قانون کے خلاف احتجاج اور تحریک جاری ہے جس سے محسوس ہوتا ہے کہ کمیونٹی کی اس نئے قانون کے خلاف جدوجہد ضرور اپنے منطقی انجام تک پہنچے گی۔ اور بار آور بھی ثابت ہو گی۔ اعلیٰ عدالتیں اپنے متعدد فیصلوں میں قرار دے چکی ہیں کہ بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ملک میں کوئی بھی قانون سازی نہیں کی جا سکتی۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں ہتک عزت کے اس نئے قانون کا مستقبل کیا ہو گا، مجھے ذرا بھر بھی شک نہیں کہ جب اسے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا تو یہ قانون کالعدم قرار دے دیا جائے گا۔
مجوزہ قانون کو دیکھیں تو اس کی دفعہ 3آئین کے آرٹیکل 10Aسے بالکل متصادم ہے۔ اس دفعہ میں کہا گیا ہے کہ کسی ثبوت کے بغیر کارروائی کا آغاز ہو سکتا ہے۔ یہ ایسا سیکشن ہے جس میں لازمی ترمیم کی ضرور ت ہے۔ کیونکہ یہ سیکشن ہر لحاظ سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین 1973ء کے آرٹیکل 10Aسے متصادم ہے جبکہ آئین پاکستان نہ صرف ہر شہری کو فیئر ٹرائل کا حق دیتا ہے۔ بلکہ اسے بنیادی انسانی حقوق کی فہرست میں شامل کرتا ہے۔ ایسے میں مجوزہ قانون کس طرح آرٹیکل 10Aکے خلاف جا سکتا ہے۔
 اس قانون میں دفعہ 12آئین کے آرٹیکل 19کی روح کی مکمل نفی کرتی نظر آتی ہے۔ اس دفعہ کے تحت ٹربیونل میں زیر التوا کسی بھی کیس کے متعلق کوئی کمنٹری یا بیان ، خواہ وہ مفاد عامہ کے حق میں ہی کیوں نہ ہو، اچھے یا بُرے انداز میں مقدمے کے آغاز سے لے کر فیصلے تک کسی بھی چینل پر آن ایئر نہیں کیا جا سکے گا۔ نہ کسی اخبار میں شائع ہو سکے گا۔ نہ ہی سوشل میڈ یا کے کسی پلیٹ فارم پر اس کی پوسٹ اپلوڈ کرنے کی اجازت ہو گی۔ ایسا کرنے والے کو 50ہزر روپے جرمانہ بھگتنا ہو گا۔
اس قانون کے تحت نئے خصوصی ٹربیونل بنائے جائیں گے جن پر لازم ہو گا کہ مجوزہ ہتک عزت قانون کے تحت چھ ماہ کے اندر ایسے افراد کو سزا دیں جو فیک نیوز بنانے اور پھیلانے میں ملوث پائے جائیں۔ ہرجانے اور قانونی کارروائی کے علاوہ یہ ٹربیونل ایسے شخص کا سوشل میڈیا اکائونٹ یا ایسا کوئی بھی پلیٹ فارم جس کا استعمال کرتے ہوئے مبینہ ہتک عزت کی گئی ہو، اُس کو بند کرنے کا حکم بھی دے سکتا ہے۔ ہتک عزت ایکٹ 2024ء کے تحت ٹربیونلز کو انتہائی بااختیار بنایا گیا ہے جس کی کارروائی کو روکنے کے لیے کوئی بھی عدالت حکم امتناع جاری نہیں کر سکے گی۔
صحافتی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ قانون پاکستان میں آزادی اظہار رائے کے آئینی حق کے خلاف ہے، اس قانون کو لوگوں کی آواز بند کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تاہم پنجاب حکومت کا مؤقف ہے کہ اس قانون کا مقصد فیک نیوز کے پھیلائو کو روکنا ہے۔
نئے قانون کے تحت کوئی ایسا شخص، جس کو لگے کہ اُس کی ساکھ کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ سول قوانین کے تحت مبینہ ہتک کرنے والے کے خلاف کارروائی کا آغاز کر سکتا ہے۔ جبکہ یہ ثابت کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہو گی کہ اس کی ساکھ کو حقیقی طور پر کتنا نقصان پہنچا ہے۔ مسودے کے مطابق اس قانون کے دائرہ اختیار میں ہر وہ شخص آئے گا جو سوشل میڈیا کی ویب سائٹس کے ذریعے تصاویر، آوازیں، اشارے یا علامات عوام تک پہنچانے کے مقصد سے نشر کرے گا۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور ایپلی کیشنز میں فیس بک، ٹویٹر، انسٹا گرام، ایکس، واٹس ایپ اور ٹک ٹاک وغیرہ شامل ہیں۔
صحافی برادری کے اعتراضات اپنی جگہ لیکن اس سے ہٹ کر بھی مجوزہ قانون میں بہت سے سقم پائے جاتے ہیں جن پر توجہ دینا ناگزیر ہے۔ شدید تحفظات اور اعتراضات کے باعث یہ نیا قانون متنازع، مبہم اور عدالتوں میں چیلنج ہوتا نظر آتا ہے۔ قانون کا سیکشن 13بہت اہمیت کا حامل اور خطرناک ہے۔ جس کے تحت کسی بھی الزام علیہ کو پہلی ہی پیشی پر تحریری طور پر یہ ثابت کرنا ہو گا کہ اس پر الزامات جھوٹے اور بے بنیاد ہیں جبکہ اس کی خبر یا سٹوری سچ پر مبنی ہے۔ اسے اپنی سچائی کے ثبوت بھی ٹربیونل کے سامنے پیش کرنے ہوں گے۔
نئے ہتک عزت قانون کے سیکشن21 کی کلاز (2)اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 18کے خلاف ہے۔ مثال کے طور پر لاکھوں لوگ کاروباری مقصد کے لیے سوشل میڈیا چلا رہے ہیں۔ اگر آپ اس کے یوٹیوب یا اس کے کسی اکائونٹ کو معطل یا بلاک کر دیتے ہیں تو یہ بنیادی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہو گی جبکہ قانون کا آرٹیکل18کہتا ہے کہ ہر شخص کو کاروبار کا حق حاصل ہے۔
مجوزہ قانون کے سیکشن 23کے مطابق قانون شہادت 1984ء ہتک عزت قانون کے تحت لاگو نہیں ہو گا۔ ایسے میں شہادت کیسے ہو گی، گواہ کون ہو گا، گواہ کی قانونی حیثیت کا تعین کیسے کیا جائے گا۔ کسی بھی ثبوت کو کیسے جانچا جائے گا۔ گواہ اور ثبوت پر جرح کا معیار کیا ہو گا؟ سپریم کورٹ نے گواہ اور ثبوتوں کے حوالے سے اب تک جو فیصلے دئیے ہیں انہیں کیسے رد کیا جائے گا۔ جن جن چیزوں یا آرٹیکلز کو ثبوت کے طور پر قبول کیا جا سکتا ہے ان کو نظر انداز کیسے کیا جا سکے گا؟
پنجاب اسمبلی سے منظور کئے جانے والے نئے قانون کے مطابق ’’ہتک عزت‘‘ سے مراد غلط یا جھوٹ پر مبنی بیان کی اشاعت، نشریات اور پھیلائو ہے۔ کوئی شخص اگر یہ سمجھے کہ اس اشاعت یا نشریات سے اُسے دوسروں کی نظروں میں گرایا گیا ہے یا اُسے نفرت اور غیر منصفانہ تنقید کا نشانہ بننا پڑا ہے۔ قانون کے مطابق ہر ایسا بیان ہتک عزت کے زمرے میں آئے گا، چاہے اس کا اظہار زبانی کلامی یا پھر تحریری اور تصویری شکل میں ہی کیوں نہ کیا گیا ہو۔قانون میں کہا گیا ہے کہ حکومت ہتک عزت قانون پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لیے جتنے ٹربیونلز ضروری سمجھے، قائم کر سکتی ہے۔ جبکہ ہر ٹربیونل کے ممبر کا تقرر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی مشاورت سے کیا جائے گا۔ ممبر اگر عدلیہ سے ہو گا تو چیف جسٹس تین نام حکومت کو بھجوائیں گے جن میں سے وہ ایک کا انتخاب کرے گی۔ جہاں ممبرز کا تعلق وکلاء سے ہو گا وہاں حکومت، چیف جسٹس کو وکلاء میں سے تین نام تجویز کرے گی۔ مزید یہ کہ کوئی بھی شخص مبینہ ہتک عزت کے وقوعہ کے 60دن کے اندر ٹربیونل میں اپنی شکایت جمع کرا سکے گا۔
ٹربیونل سمن کے ذریعے متعلقہ شخص کو طلب کرے گا جس کے خلاف الزام عائد کیا گیا ہو۔ ٹربیونل کیس کی سماعت کے 60دن کے اندر درخواست پر فیصلہ سنانے کا پابند ہو گا۔ اگر درخواست کسی آئینی عہدے پر فائز شخص کے خلاف ہے تو ٹربیونل اس کے خلاف کارروائی نہیں کر سکے گا بلکہ اُس کے خلاف یہ کارروائی لاہور ہائی کورٹ کا خصوصی سنگل بینچ کرے گا۔
آئین کا آرٹیکل 9ہر شہری کو زندہ اور آزاد رہنے کا حق دیتا ہے لیکن یوں لگتا ہے کہ پنجاب حکومت، مجوزہ قانو ن کے ذریعے صافیوں سے جینے اور کھل کا جینے کا حق چھیننا چاہتی ہے ایسا کوئی قانون دیرپا چل سکتا ہے نہ ہی اس کے مثبت نتائج سامنے آسکتے ہیں یہی وجہ ہے کہنئے ہتک عزت قانون پر اب صحافتی تنظیمیں ہی نہیں، ہیومن رائٹس کی تنظیمیں بھی بول پڑی ہیں۔ پنجاب اسمبلی کے اس نئے قانون کو ’’کالا قانون‘‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ جماعت اسلامی بھی ہتک عزت قانون کے خلاف سامنے آ گئی ہے۔ دیگر سیاسی جماعتیں بھی قانون کی مخالفت میں صف آراء ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ نہیں لگتا کہ پنجاب حکومت اس نئے قانون کو واپس لے گی۔ واثق امید یہی کی جا سکتی ہے کہ یہ قانون لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج ہو گا اور بالآخر کالعدم قرار دے دیا جائے گا۔

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...