ہفتہ خوش اخلاقی منائیے اور کیا کہوں بتائیے

مکرمی! عید پر مہنگائی پر احتجاج کرتے ہوئے کلرکوں نے پنجاب اسمبلی کے سامنے مرغے کی اجتماعی قربانی کی اور ایپکا کا یہ دعویٰ ہے کہ قربانی کے اس منظر کو وہاں سے گزرتے ہوئے جسٹس افتخار چودھری نے بھی دیکھا۔ مگر اس تمام احتجاج کا کیا فائدہ؟ اب چاہے آپ اس مرغے کی اجتماعی قربانی کے گوشت کو مرکزی حکومت کو بھجوائیں یا صوبائی حکومت کو انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ خدارا اب اس بات کو سمجھ لیجئے کہ اگر حکومت نے عوام کیلئے کچھ کرنا ہوتا تو والدین بچوں کے گلے میں برائے فروخت کی تختی کبھی نہ باندھتے۔مائیں اپنے بچوں کو لے کر غربت کے ہاتھوں ٹرین کے نیچے آ کر خود کشیاں کبھی نہ کرتیں۔ پڑھے لکھے نوجوان نوکریوں کی تلاش کرتے کرتے تھک کر بیچ بازار میں اپنی ڈگریاں فروخت مت کرتے۔ تو اب میری مانیے عید تو جیسے تیسے گزر گئی اب ایک ہفتہ خوش اخلاقی کا منائیے اس کے علاوہ اور کوئی راستہ بھی نہیں۔ (علی عمار ولد محمد اختر، بارک 9A چکی11 کیمپ جیل لاہور)

ای پیپر دی نیشن