سید روح الامین
بجلی تو حکومت پہلے ہی بند کر چکی ہے بس بجلی کے بل ہر ماہ اضافے کے ساتھ جاری و ساری ہیں۔ گیس بھی بند ہوتی ہے عوام مہنگا آٹا لے کر کھانے پر مجبور ہیں ہمیں امید ہے کہ بہت جلد حکمران آٹا کا استعمال بھی بند کرا دیں گے۔ کئی ریلوے ٹرینیں بھی بند کر دی گئی ہیں۔ یہ ”عوام دوست“ حکومت کی اعلیٰ کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ عوام یہ سوچتے ہیں کہ کیا یہ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر کی پیپلز پارٹی ہے؟ دہشت گردی، سیلاب کی تباہی کی آڑ میں بیرونی دنیا سے دھڑا دھڑ قرضے لینا، معاف کرانا اور امداد کے نام پر بھیک مانگنا ہمارے موجودہ حکمرانوں کا وطیرہ بن گیا ہے اور انہوں نے قائداعظمؒ کے پاکستان کی آزادی اور خودمختاری کو بھی داﺅ پر لگا دیا ہے۔ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے! ایک طرف حکمران عوام کو سادگی کا درس دیتے ہیں اور کھانا پینا بھی چھوڑنے کا حکم دیتے ہیں دوسری طرف وہ اور ان کے حواری قرضے بھی معاف کرا رہے ہیں۔ ادھر احتساب کے بارے کہتے ہیں کہ سیاستدان کا احتساب اُس وقت شروع ہو جاتا ہے جب وہ سیاست میں داخل ہوتا ہے۔ یہ کہ اگر وہ یوٹیلٹی بل ادا نہیں کریں گے تو ریٹرننگ آفیسر ان کے کاغذات مسترد کر دے گا۔ اپنی چکنی چپڑی باتوں سے کس خوبصورت انداز میں سادہ لوح عوام کو بے وقوف بنانے میں مہارت رکھتے ہیں۔ آمریت تو ایک ناپسندیدہ حکومت کا طریقہ ہے اسے برداشت تو مجبوراً کیا جاتا ہے۔ جمہوریت تو پسندیدہ اور عوامی حکومت ہوتی ہے۔ اسے تو خوشی سے قبول کیا جاتا ہے۔ اگر جمہوریت بھی محض نام کی حد تک ہو اور عوام کے مسائل کی طرف توجہ ہی نہ دی جائے تو اسے برداشت کیسے کیا جائے گا؟ عدالتوں کے فیصلے حکومت تسلیم ہی نہیں کرتی۔ اگر این آر او زدگان سے عدالت کے حکم پر پیسے وصول کر لئے جاتے اور جعلی ڈگری ہولڈر سے بھی رقم وصول کر کے اُنہیں واقعی سزا دی جاتی تو پارلیمنٹ آج حقیقی معنوں میں ”شفاف“ اور ”بالادست“ ہوتی۔ کیا آزاد عدلیہ کا مطلب صرف فیصلے کرنا اور پھر اُن کی توہین کرانا ہی ہے؟ اگر حکمرانوں نے عوام کو اپنا سمجھا ہوتا تو اُنہیں آج اپنی حکومت بچانے کے لئے ”ناجائز“ سہارے نہ ڈھونڈنے پڑتے۔ عوام کو خوشحالی دی ہوتی تو آئے روز جنرل پرویز کیانی کے ساتھ بیٹھ کر فوٹو سیشن کرانے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی اور نہ ہی فوج کی ”اپنائیت“ کا سہارا لینا پڑتا اور نہ ہی اپنے دائیں بائیں چند اتحادیوں کو بٹھا کر عوام کو ”باتوں“ سے ٹرخانے کے لئے تگ و دو کرنی پڑتی۔ موجودہ جمہوریت نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ اگر بیرونی دنیا نے ہمارے قرضے معاف نہیں کرنے تو ”ڈومور“ کا مطالبہ بھی نہ کرے۔ لگتا ہے کہ وزیر داخلہ پیسوں کے عوض بیرونی دنیا کی خوشنودی کے لئے ڈومور کا مطالبہ ہی پورا کرتے رہیں گے اور وسائل پیدا کرنے کی طرف توجہ نہیں دیں گے کہ ملک میں خوشحالی و امن کا بول بالا ہو۔ کاش کہ ہمارے حکمران نو مور کہہ کر اپنی غیرت اور آزادی کا ثبوت فراہم کر دیں۔
بجلی تو حکومت پہلے ہی بند کر چکی ہے بس بجلی کے بل ہر ماہ اضافے کے ساتھ جاری و ساری ہیں۔ گیس بھی بند ہوتی ہے عوام مہنگا آٹا لے کر کھانے پر مجبور ہیں ہمیں امید ہے کہ بہت جلد حکمران آٹا کا استعمال بھی بند کرا دیں گے۔ کئی ریلوے ٹرینیں بھی بند کر دی گئی ہیں۔ یہ ”عوام دوست“ حکومت کی اعلیٰ کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ عوام یہ سوچتے ہیں کہ کیا یہ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر کی پیپلز پارٹی ہے؟ دہشت گردی، سیلاب کی تباہی کی آڑ میں بیرونی دنیا سے دھڑا دھڑ قرضے لینا، معاف کرانا اور امداد کے نام پر بھیک مانگنا ہمارے موجودہ حکمرانوں کا وطیرہ بن گیا ہے اور انہوں نے قائداعظمؒ کے پاکستان کی آزادی اور خودمختاری کو بھی داﺅ پر لگا دیا ہے۔ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے! ایک طرف حکمران عوام کو سادگی کا درس دیتے ہیں اور کھانا پینا بھی چھوڑنے کا حکم دیتے ہیں دوسری طرف وہ اور ان کے حواری قرضے بھی معاف کرا رہے ہیں۔ ادھر احتساب کے بارے کہتے ہیں کہ سیاستدان کا احتساب اُس وقت شروع ہو جاتا ہے جب وہ سیاست میں داخل ہوتا ہے۔ یہ کہ اگر وہ یوٹیلٹی بل ادا نہیں کریں گے تو ریٹرننگ آفیسر ان کے کاغذات مسترد کر دے گا۔ اپنی چکنی چپڑی باتوں سے کس خوبصورت انداز میں سادہ لوح عوام کو بے وقوف بنانے میں مہارت رکھتے ہیں۔ آمریت تو ایک ناپسندیدہ حکومت کا طریقہ ہے اسے برداشت تو مجبوراً کیا جاتا ہے۔ جمہوریت تو پسندیدہ اور عوامی حکومت ہوتی ہے۔ اسے تو خوشی سے قبول کیا جاتا ہے۔ اگر جمہوریت بھی محض نام کی حد تک ہو اور عوام کے مسائل کی طرف توجہ ہی نہ دی جائے تو اسے برداشت کیسے کیا جائے گا؟ عدالتوں کے فیصلے حکومت تسلیم ہی نہیں کرتی۔ اگر این آر او زدگان سے عدالت کے حکم پر پیسے وصول کر لئے جاتے اور جعلی ڈگری ہولڈر سے بھی رقم وصول کر کے اُنہیں واقعی سزا دی جاتی تو پارلیمنٹ آج حقیقی معنوں میں ”شفاف“ اور ”بالادست“ ہوتی۔ کیا آزاد عدلیہ کا مطلب صرف فیصلے کرنا اور پھر اُن کی توہین کرانا ہی ہے؟ اگر حکمرانوں نے عوام کو اپنا سمجھا ہوتا تو اُنہیں آج اپنی حکومت بچانے کے لئے ”ناجائز“ سہارے نہ ڈھونڈنے پڑتے۔ عوام کو خوشحالی دی ہوتی تو آئے روز جنرل پرویز کیانی کے ساتھ بیٹھ کر فوٹو سیشن کرانے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی اور نہ ہی فوج کی ”اپنائیت“ کا سہارا لینا پڑتا اور نہ ہی اپنے دائیں بائیں چند اتحادیوں کو بٹھا کر عوام کو ”باتوں“ سے ٹرخانے کے لئے تگ و دو کرنی پڑتی۔ موجودہ جمہوریت نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ اگر بیرونی دنیا نے ہمارے قرضے معاف نہیں کرنے تو ”ڈومور“ کا مطالبہ بھی نہ کرے۔ لگتا ہے کہ وزیر داخلہ پیسوں کے عوض بیرونی دنیا کی خوشنودی کے لئے ڈومور کا مطالبہ ہی پورا کرتے رہیں گے اور وسائل پیدا کرنے کی طرف توجہ نہیں دیں گے کہ ملک میں خوشحالی و امن کا بول بالا ہو۔ کاش کہ ہمارے حکمران نو مور کہہ کر اپنی غیرت اور آزادی کا ثبوت فراہم کر دیں۔