اسلام آباد (عترت جعفری) پاکستان نے آئی ایم ایف سے مراسم برقرار رکھنے اور ایس بی اے کے تحت قرض کی قسط جاری کرانے کے لئے کم و بیش تمام شرائط پوری کردی ہیں اور توقع ہے کہ آئی ایم ایف بورڈ کے آئندہ اجلاس میں جو دسمبر کے وسط میں ہو گا پاکستان کو قسط مل جائے گی۔ آئی ایم ایف نے قسط اور آئندہ کے تعلقات اور عالمی مالیاتی ادارے سے مزید پروگرام لینے کے لئے پہلی شرط ریفارمڈ جی ایس ٹی کے نفاذ سے متعلق تھی۔ حکومت نے منی بل کے حصہ کے طور پر آر جی ایس ٹی کا بل پیش کیا جس سے سینٹ کی طرف سے اسے منظور یا مسترد کرنے کا اختیار ہو گا اور ایوان کا اختیار صرف سفارشات کی حد تک رہ گیا۔ اگر یہ بل منی بل کے حصہ کے طور پر پیش نہ ہوتا تو قومی اسمبلی سے زیادہ اس کے سینیٹ میں مسترد ہونے کے خدشات واضح تھے جبکہ قومی اسمبلی کی مجلس قائمہ برائے خزانہ کا اجلاس بھی 2 دسمبر کو طلب کرلیا گیا ہے جس میں جی ایس ٹی اور فلڈ سرچارج کے بلز زیرغور آئیں گے۔ توقع ہے کہ جب آئی ایم ایف کے بورڈ کے اجلاس کے لئے ایجنڈا کو حتی شکل دی جا رہی ہوگی اس وقت تک جی ایس ٹی کی پارلیمنٹ سے منظوری کا عمل کافی حد تک آگے بڑھ چکا ہو گا۔ آئی ایم ایف کی دوسری شرائط توانائی کے شعبے کی اصلاحات تھیں۔ ان شرائط کے تحت بجلی کے نرخ تسلسل سے بڑھائے جا رہے ہیں۔ پاور کمپنیوں کے بورڈ تحلیل کرکے ان کے آزاد بورڈ تشکیل دیئے جا رہے ہیں۔ زرعی ٹیوب ویلوں کی سبسڈی بھی ختم کئے جانے کا امکان ہے۔ آئی ایم ایف نے مطالبہ کیا ہے کہ آر جی ایس ٹی کو مربوط طور پر نافذ کیا جائے کیونکہ اس کے بغیر آر جی ایس ٹی کی کامیابی کا امکان نہیں ہے کیونکہ پاکستان میں بیشتر کاروبار اس طرح کے ہیں جہاں گڈز اور سروسز دینے والے افراد ایک ہی ہیں جیسے کیٹرز‘ کنٹریکٹرز وغیرہ اس لئے صوبوں کی طرف سے ایف بی آر کو سروسز پر جی ایس ٹی کی وصولی کا اختیار دینا بھی ضروری ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ان بیشتر شرائط کے پورا ہونے کی وجہ سے آئی ایم ایف کے بورڈ میں پاکستان کا کیس زیرغور آ جائے گا۔