امریکی ڈرون حملے اور سیاسی جماعتوں کا کردار

امریکی ڈرون میزائلوں کے پاکستان مخالف لگاتار حملوں نے اندرونِ ملک لاینحل مسائل کو بڑھا دیا ہے۔ پہلے تو خودمختاری‘ اقتدارِ اعلیٰ‘ سلامتی کو چیلنج کیا جا رہا تھا‘ لیکن اب امریکی ”بے لگام گھوڑوں“ نے پاکستان کے فاٹا کے علاقوں کو تباہ کرنے کے بعد باقاعدہ پُرامن شہریوں کو اپنے دہشت گردانہ حملوں کی زد میں لیکر پاکستانی حکومت کو نئے چیلنج سے دوچار کر دیا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہو چکا ہے کہ وزیراعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف اور فوجی قیادتیں پاکستان میں امریکی دیدہ دلیری کے بڑھتے ناسور کو ہنگو شہر سے آگے دیگر اضلاع میں روکنے کی کارگر حکمت عملی تشکیل دیکر فوری عمل کرتے ہیں یا نہیں؟؟ ملکی سلامتی کے ضامن حکومت اور دفاعی سکیورٹی ادارے ہیں۔ آخر وہ وقت اب کب آئے گا کہ قومی سلامتی کے تقاضوں پر امریکی ڈالرزایڈز (مدد نما ایڈز بیماری) کو ترجیح دینے کا فیصلہ اور پالیسی تبدیل کر دی جائے۔ امریکی ڈالرز کی امداد تو واضح طورپر غلامی کا راستہ معلوم ہوتا ہے۔ کشکول ہے کہ وزیرخزانہ اور وزیراعظم کے ہاتھوں سے چھوٹتا ہی نہیں۔
پاکستان کے غیرت مند عوام امریکی دہشت گردانہ ڈرون حملوں کے خلاف حکمت و تدبر اور جرا¿تمندانہ اقدامات کے متمنی ہیں‘ لیکن یہ آرزو حکمرانوں کے سر پر جوں رینگنے کا باعث بھی نہیں بنتی!! کیا اب وزیراعظم میاں محمد نوازشریف اور فوجی قیادت اگلے ممکنہ ڈرون حملوں کیلئے کوئٹہ‘ چمن‘ خضدار‘ کوہاٹ‘ ڈیرہ اسماعیل خان‘ ضلع چترال اور حیات آباد پشاور کو نشانہ بننے کا انتظار کر رہے ہیں؟؟ اگر امریکی مطلوبہ افراد ان شہروں میں سے کہیں بھی ہوئے تو فوجی و دفاعی قیادت امریکی میزائل حملوں کو شاید نہ روک پائے!! مشیر خارجہ سرتاج عزیز کے سر پر تو ”سر منڈواتے ہی اولے پڑے“ کے مصداق 24 گھنٹے کے اندر ہی امریکی میزائلوں سے ”خارجہ معاملات“ اڑا دیئے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان دوستی کے کردار کا پاس!! امریکی دہشت گرد انتظامیہ سے سرتاج عزیز یا میاں محمد نوازشریف کی ”بھولپن“ والی توقعات بیکار ثابت ہو چکیں۔ اب نہ تو وزیراعظم وزارت خارجہ کے احتجاج‘ مراسلوں‘ سفیر طلبی کے ڈرامے کی کوئی حیثیت نہ ہی ”امریکی دیو“ حکمرانوں کو ”لفٹ“ کراتے ہیں۔ یہ ناکامی بڑی رسوائی محسوس ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ اور سیاسی پارٹیوں کو اب نیا لائحہ عمل بنانے کیلئے مل کر فوراً پلان اے‘ بی‘ سی بنانا چاہئے۔ قومی اسمبلی کی قراردادیں یا مطالبات بیکار ثابت ہو چکے۔ اب عمل کا وقت آگیا عمران خان نے اپنی جماعت کا محدود مظاہرہ کرتے ہوئے امریکہ سے بغاوت کی بنیاد رکھ دی ہے۔ مخالفین یہ پراپیگنڈا کرتے ہیں کہ عمران خان نے سیاسی مقاصد کیلئے ایسا کیا!! اصل میں یہ دیکھا جانا چاہئے کہ عمران خان نے کم از کم 10 سال کے یہودی و عیسائی ایجنٹ کے جھوٹے الزام کو امریکہ مخالف مہم سے بالکل غلط ثابت کر دکھایا!! ”مغربی ثقافت اور سوچ“ کے ”ٹھپے“ خان کے اوپر سے اترنے لگے ہیں۔ اب وہ قومی غیرت‘ خودداری‘ خودمختاری کے راستے پر عوام کے جوانوں کے ساتھ آگے بڑھا ہے‘ لیکن المیہ یہ ہے کہ قومی سیاسی جماعتیں امریکہ مخالف احتجاجی مہم کو بھی پراپیگنڈے کے زور پر عمران کے خلاف لے جانے کی مہم میڈیا پر چلا رہی ہیں۔ ہمیں عمران خان سے جو بھی اختلاف ہو‘ لیکن وہ عملاً بازی لے گیا۔ اب حکومت‘ میاں محمد نوازشریف‘ پرویز رشید‘ چودھری نثار علی خان کو بھی پارلیمنٹ کے اندر‘ سینٹ کے اندر اور قومی اسمبلی کے باہر ڈرون حملوں کے خلاف متفقہ پالیسی کیلئے بلاتاخیر آگے بڑھنا چاہئے۔ اگر میاں محمد نوازشریف اور حکومتی وزراءعوام کی کثیر تعداد کو چار درجہ سکیورٹی کلیئرنگ کے بعد قومی اسمبلی کے سامنے یا امریکی ایمبیسی کے سامنے دھرنا دینے کا عمل کر دکھائیں تو قومی اتحاد و یکجہتی کا شاندار مظاہرہ سامنے آئے گا!! دھڑوں میں بٹے امریکہ مخالف احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں کے کم اثر والے فیصلوں کے بجائے ”قومی آواز“ متحد ہوکر امریکہ و اقوام متحدہ تک پہنچانی چاہئے۔ بعض افراد یہ اعتراض کر سکتے ہیں کہ حکومت وقت ایسا نہیں کرتی۔ اسے ”سخت فیصلے لینے“ ہوتے ہیں۔ یہ بجا ہے‘ لیکن اپنی اپنی ڈفلی اور منافقتیں‘ مفادات چھوڑ کر امریکہ کے خلاف ”ایک گروہ“ بن کر ڈرون حملے رکوانے کیلئے یہ ہونا ضروری ہے۔ آگے چل کر 30 دن کے اندر وفاقی حکومت‘ سیاسی پارلیمانی جماعتوں سے مل کر غوروغوض کے بعد عملی پالیسی اقدامات منظور کروا کر امریکہ کا راستہ روکنے اور ڈرون حملے رکوانے کی سمتDirectionاپنائے۔ قومی سلامتی‘ اندرونی استحکام کیلئے اب نمائشی کمزور اقدامات سے آگے بڑھ کر امریکی دہشت گردی کو لگام ڈالنا امتحان ہے!!

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...