90ء کی دہائی میں جہانگیر ترین کے پاس کچھ نہیں تھا، عمران حساب لیں: پرویز رشید

Nov 26, 2014

اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ+ این این آئی) وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید نے کہا ہے کہ عمران خان کو الزامات لگانے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہئے، کوئی کارروائی شروع کی گئی تو کہا جائیگا انتقامی کارروائی ہو رہی ہے، حقائق عوام کے سامنے لانے کا فیصلہ کر چکے ہیں، 90 کی دہائی میں جہانگیر ترین کے پاس کچھ نہیں تھا، اب جہانگیر ترین پاکستان کے امیر ترین لوگوں میں شامل ہوگئے ہیں، وہ کم وقت میں ارب پتی کیسے بنے؟ عمران خان پوچھیں پیسہ کہاں سے آیا، جہانگیر ترین پارٹی کے سیکرٹری جنرل ہیں، عمران بتائیں کے پی کے میں تمام ٹھیکے جہانگیر ترین کو کیوں دیئے؟ نجکاری کمشن کے چیئرمین محمد زبیرکے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ابھی ہم ہفتہ خوش اخلاقی منا رہے ہیں اور عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو وارننگ دے رہے ہیں۔ ہم حقائق عوام کے سامنے لا رہے ہیں تاکہ عوام خود فیصلہ کر سکیں دوسروں پر دن رات الزام لگانے والوں کا اپنا کردار کیا ہے اور انہوں نے بنکوں سے کتنے قرضے معاف کرائے اور ٹیکس کی کتنی رقم ادا کی ہے۔ انہوں نے کہا حکومت عوام کی فلاح و بہبود پر یقین رکھتی ہے گزشتہ ماہ تیل کی قیمتوں میں کمی کی اوراس مرتبہ بھی کمی کی جائے گی۔ وزیراعظم کے دورہ چین سے سرمایہ کاری آئی ہے نجکاری کمشن کے چیئرمین محمد زبیر نے کہاکہ عمران خان روز الزامات لگا کر ہمیں بار بار بولنے کا موقع دیتے ہیں عمران خان روزانہ کنٹینر پر کھڑے ہوکر توپوں کا رخ ہماری طرف کرتے ہیں لیکن وہ اپنے دائیں بائیں کھڑے لوگوں کو نہیں دیکھتے کہ انہوں نے کتنا ٹیکس ادا کیا اور کتنے قرضے معاف کرائے۔ جہانگیر ترین پاکستان کے امیر ترین لوگوں میں شامل ہیں، عمران خان ان کا جہاز استعمال کرتے ہیں شریف فیملی نے 1935ء میں کاروبار کا آغاز کیا تھا جسے 1971ء میں قومی تحویل میں لے لیاگیا لیکن جہانگیر ترین کے پاس 1990ء کی دہائی میں کچھ نہیں تھا لیکن اب ان کی شوگر ملوں سے 60ہزار ٹن پیداوار ہوتی ہے اور یہ ٹریڈنگ کارپوریشن کے سب سے بڑے کنٹریکٹر ہیں۔ انہوں نے 15بلین کی سرمایہ کاری سے آئی پی پی پلانٹ لگائے، جنرل مشرف کے دور حکومت میں جب جہانگیر ترین وزیر بنے تو انہوں نے اپنی دولت میں اضافہ کیا۔ انہوں نے سپیریئر ٹیکسٹائل مل کی مد میں حاصل کیا گیا 247ملین کا قرضہ معاف کرایا۔ قرضے معاف کرانیوالوں میں چودھری برادران بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا جمالی حکومت صرف ایک ووٹ سے بنی تھی اس وقت ایک ایک ووٹ قیمتی تھا اور سہولت دینے کیلئے یہ سرکلر جاری کیا گیا جس کے تحت قرضے معاف کئے گئے جبکہ دوسری جانب حبیب بنک کی نجکاری بھی ہونی تھی اور اس کی بیلنس شیٹ بھی کلیئر کرائی جا رہی تھی۔ انہوں نے کہا عمران خان روزانہ کنٹینر پرکھڑے ہوکر بھاشن دیتے ہیں 1995ء میں جہانگیر ترین کی صرف 4ہزار ٹن شوگرپیداوار تھی جو اب 60ہزار ٹن تک پہنچ گئی ہے۔ نیشنل رورل سپورٹ پروگرام کے تحت باہر سے کروڑوں ڈالر کی فنڈنگ آئی تھی تاکہ دیہی علاقوں میں سڑکوں کی تعمیر اور دیگر سہولتیں فراہم کی جا سکیں اس فنڈ سے جہانگیر ترین نے اپنی شوگرملوں کی طرف جانیوالی سڑکوں کو بہتر بنایا، محمد زبیر نے کہا پولیٹیکل پارٹی ایکٹ کے تحت کوئی بھی کمپنی سیاسی جماعتوں کو فنانس نہیں کر سکتی۔ جہانگیر ترین کاکہنا ہے ٹکٹوں پر چالیس ملین روپے خرچ کئے گئے۔ کیا انہوں نے حکومت پاکستان کو اس پر ٹیکس دیا ہے۔ جہانگیر ترین نے عمران خان کی سول نافرمانی تحریک کی کال کو مسترد کیا کیونکہ وہ کاروباری آدمی ہیں۔ انہوں نے کہا عمران خان کہتے ہیں بزنس اور سیاست کو الگ الگ ہونا چاہئے تو وہ بتائیں کیا جہانگیر ترین بزنس نہیں کر رہے اور وہ کے پی کے میں تحریک انصاف کی حکومت سے فائدے نہیں اٹھا رہے جتنے بھی ٹھیکے کے پی کے میں ہیں وہ جہانگیر ترین کی کمپنیاں لے رہی ہیں۔ انہوں نے کہا تحریک انصاف کی حکومت کبھی بنتی ہے تو کیا جہانگیر ترین حکومت میں آنے کے بعد بزنس چھوڑ دینگے، وہ تحریک انصاف کے جنرل سیکرٹری ہیں اور عمران خان کے بعد دوسرے نمبر پر آتے ہیں۔ انہوں نے کہا پی ٹی اے کے 82فیصدارکان پارلیمنٹ نان ریگولر ٹیکس دہندہ ہیں ان میں وزیراعلیٰ کے پی کے پرویزخٹک بھی شامل ہیں یہ تمام معلومات ایف بی آ ر کے پاس موجود ہیں عمران خان نے 90ء کی دہائی میں کبھی ٹیکس ادا نہیں کیا۔ 2002ء میں جب وہ ایم این اے بنے توٹیکس ریٹرن جمع کرانی شروع کی۔ وزیر اطلاعات نے کہا محمد زبیر نے جس شستہ انداز میں بات کی عمران خان کو یہ بھی بتانا چاہتے ہیں بات کرنے کا طریقہ کیا ہوتا ہے۔

مزیدخبریں