میاں طفیل محمد اورسید منور حسن!

Nov 26, 2014

اثر چوہان

 خوش اخلاقی، ضبط نفس اور انصاف پسندی کی خوبیوں کے مالک کھلاڑی کو ”Sportsman“ کہا جاتا ہے۔ عمران خان نے اپنی پارٹی کا نام ”پاکستان تحریک انصاف“ رکھ کر انصاف پسندی کا ثبوت تو دے دیا ہے۔ خوش اخلاقی اور ضبط نفس کی خوبیاں بھی ”اظہر من الشمس“ ہیں۔

”بھیڑوں کی طرح مار کھانا!
دھرنے کے دوران عمران خان تحریک انصاف کے کارکنوں کو ”Tigers“ کہہ کر پکارتے رہے ہیں۔ ”Tigers“ شیر کو کہا جاتا ہے اور چیتے کو بھی کسی انسان کو ”Tiger“ کہا جائے تو اس سے مراد بہادر مرد یا خاتون ہوتا ہے۔ اپنے تازہ ترین بیان میں عمران خان ے کہا کہ اب تحریک انصاف کے کارکن بھیڑوں کی طرح مار نہیں کھائیں گے۔ یہ بیان جاری کر کے عمران خان نے ”اخلاقی جرات“ کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان کے ”Tigers“ نے بھیڑوں کی طرح مار کھائی اور خان صاحب نے اس کا اعتراف بھی کرلیا۔ اس طرح کا اعتراف عام سیاستدان نہیں کرتے۔
” ماہر عمرانیات“ ہونے کے دعویدار وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات پرویز رشید زیر مونچھ مسکراتے ہوئے عمران خان سے پوچھ سکتے ہیں کہ خان صاحب! اس بار آپ کے کارکن بھیڑوں کی طرح مار نہیں کھائےں گے تو کیا بکریوں کی طرح مار کھائیں گے؟ فی الحال پرویز رشید صاحب نے صرف اتنا ہی کہا ہے کہ جو بھی قانون توڑے گا ہم اسے گردن سے دبوچ لیں گے۔ وزیر اطلاعات نے اس بات کی وضاحت نہیں کی گردن دبوچنے والے ہم میں ان کے ساتھ اور کون کون شامل ہو گا؟ اور جب یہ سارے ”ہم“ ایک ایک قانون توڑنے والے کی گردن دبوچ لیں گے تو اس کے بعد کیا کریں گے؟ کیا گردن دبوچ کر بیٹھے رہیں گے؟ اور کتنی دیر؟ استاد حیدرعلی آتش کی خواہش پرویز رشید صاحب سے مختلف تھی جب انہوں نے فریق مخالف (محبوب) سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ....
دو تو کمر میں، دوتری گردن میں ڈالتا
دیتا جو اے صنم مجھے اللہ چار ہاتھ!
پرویز رشید صاحب یہ بات ذہن میں رکھیں کہ جب ”ہم“ کسی کی گردن دبوچیں گے ہر کوئی بھیڑ کے بھیس (کھال) میں ”Tiger“ ہو گا۔ عام آدمی تو یہی چاہے گا کہ بھیڑوں کی طرح مار کھانے اور گردن دبوچنے کا کھیل نہ ہی ہو تو اچھا ہے۔
قائم علی شاہ۔ قائم و دائم!
ایک جم خانہ کلب میں وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی صدارت میں منعقدہ اجلاس کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے دو گروپوں میں تصادم کے دوران فریقین نے ایک دوسرے پر لاتوں اور مکوں کی بارش کر دی۔ جس پر سید قائم علی شاہ اور دوسرے رہنماﺅں ارباب وزیر میمن، صادق علی میمن اور حمیرا علوانی سمیت درجنوں کارکن زخمی ہو گئے۔ فریقین نے ایک دوسرے پر مائیکس، پھول دان اور دوسری دستیاب اشیاءبھی پھینکیں۔ اجلاس میں موجود اہلکاروں نے وزیر اعلیٰ سندھ کو اجلاس سے نکال کر محفوظ مقام تک پہنچا دیا۔ خبر کے مطابق سید قائم علی شاہ بہت مایوس نظر آ رہے تھے۔ بعدازاں انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ مجھے میرے عہدے سے ہٹانے کے لئے مختلف آراءہو سکتی ہیں لیکن مجھے قدرت ہٹا سکتی ہے یا پارٹی کے چیئرمین!
15 مئی 2013ءکو قومی اخبارات میں ایک خبر شائع ہوئی تھی کہ اگر صدر زرداری نے اپنے منہ بولے بھائی اویس مظفر ٹپی کو وزیر اعلیٰ سندھ بنایا تو پاکستان پیپلز پارٹی میں بغاوت ہو جائے گی۔ لیکن دوسرے روز پارٹی کے ایک رہنما جناب منظور حسین وسان نے اپنے ایک خواب کے حوالے سے کہا تھا کہ اس بار سندھ کا وزیر اعلیٰ کوئی بوڑھا نہیں بلکہ نوجوان ہو گا۔ ”Wikipedia“ کے مطابق جناب ٹپی جناب آصف زرداری کے والد جناب حاکم علی زرداری کے ”Bambino Cinema“ کے منیجر اور ان کے منہ بولے بیٹے تھے/ ہیں۔ 11 مئی 2013ءکے عام انتخابات میں صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور وزیر بھی ہیں لیکن فی الحال وزیر اعلیٰ نہیں بن سکے۔ اس لئے کہ فی الحال قدرت اور پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، سید قائم علی شاہ پر مہربان ہیں۔ استاد صاحب لکھنوی نے کہا تھا....
اے صبا ہوتے ہیں دنیا میں تماشے کیا کیا؟
اپنی قدرت کے ہیں وہ، کھیل دکھائے جاتے
یہ قدرت کا کھیل نہیں تو اور کیا ہے کہ جناب ذوالفقار علی بھٹو کے ”روحانی فرزند“ آصف علی زرداری (نان گریجویٹ ہونے کے باوجود) صدر پاکستان منتخب ہوئے اور ان کا بیٹا بھٹو کا لقب اختیار کر کے بھٹو صاحب کی پارٹی کا چیئرمین۔ پھر سید قائم علی شاہ تاحیات ”قائم و دائم“ کیوں نہں رہ سکتے؟
میاں طفیل محمد اور سید منور حسن
سابق امیر جماعت اسلامی سید منور حسن نے اپنے بیان بسلسلہ جہادو قتال فی سبیل اللہ۔ کا ملبہ میڈیا پر ڈال دیا ہے۔ منصورہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے منور حسن صاحب نے کہا کہ کچھ لوگ میرے بیان پر سیخ پا ہو رہے ہیں اور میرے بیان کو اپنے مطلب کے معنی پہنا کر عوام کو گمراہ اور متنفر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں نے تو یہ کہا تھا کہ صرف جہاد اور قتال فی سبیل اللہ ہی جائز ہے۔ صورت یہ ہے کہ سید منور حسن اپنے تردیدی بیان سے خود ہی عوام کو عوام بلکہ خواص کو بھی متنفر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ قومی اخبارات میں شائع ہونے والے بیانات سے مکرا جا سکتا ہے لیکن الیکٹرانک میڈیا کے ”کراماً کاتبین“ کو کون جھٹلا سکتا ہے؟
سید منور حسن کا یہ بیان الیکٹرانک میڈیا پر پوری دنیا میں دیکھا اور سنا گیا۔ وہ (بقول اپنے) ”ببانگ دہل“ کہہ رہے تھے کہ جمہوریت مسائل کا حق نہیں ہے ہمیں انقلاب کے لئے جہاد و قتال فی سبیل اللہ کا کلچر عام کرنا ہو گا۔ امیر جماعت اسلامی کی حیثیت سے منور صاحب نے پاک فوج کے جوانوں اور افسران سمیت 55 ہزار بے گناہ پاکستانیوں کے قاتلوں کے سرغنہ حکیم اللہ محسود کو ”شہید“ اور اسامہ بن لادن کو ”سید الشہدا“ کا خطاب دیا تھا۔
جناب سراج الحق کی امارت میں جماعت اسلامی جمہوریت کے ذریعے ہی ”اسلامی انقلاب“ اور خلافت کے قیام کے حق میں ہے جماعت اسلامی کے زیر اہتمام 30 ممالک 55 تحریکی قائدین، علما اور سکالرز نے 24 نومبر کو لاہور میں اپنی کانفرنس جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ ہر قسم کے تشدد اور انتہا پسندی سے لاتعلقی کر کے عالم اسلام میں صرف انتخابات کے ذریعے ہی تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ مشترکہ اعلامیہ میں منورحسن صاحب کے فتویٰ کے مطابق جمہوریت سے لاتعلقی اور جہاد و قتال فی سبیل اللہ کا اعلان نہیں کیا گیا۔
سید منور حسن کے بیان پر مجھے سابق امیر جماعت اسلامی میاں طفیل محمد کا جماعت اسلامی کی گولڈن جوبلی (26 اگست 1991ئ) کے موقع پر باغ بیرون موچی دروازہ لاہور میں صدارتی خطبہ یاد آگیا۔ میاں صاحب نے کہا تھا کہ جماعت اسلامی کے ارکان قومی اسمبلی کی مت ماری گئی کہ انہوں نے موجودہ شریعت بل پر دستخط کر کے شریعت کی بالادستی کے لئے مولانا مودددی کی 47برس کی جدوجہد پر پانی پھیر دیا۔ جماعت اسلامی کو اس وقت اصلاح کی ضرورت ہے۔ منور حسن صاحب! اس بار مت کس کی ماری گئی؟

مزیدخبریں