26نومبر2011 کو صبح 2بجے امریکی ہیلی کاپٹروں اور جنگی جہازوں نے مہمند ایجنسی کی تحصیل با ئیزئی کے سرحدی علاقے سلالہ کی چیک پوسٹوں پر حملہ کیا ۔ پاکستان کی طرف سے بگرام ائر بیس پر رابطہ کر کے امریکی فوجی حکام کو سرحدی خلاف ورزی سے آگاہ کیا گیا تاہم امریکی فورسز نے دو گھنٹے تک کاروائی جاری رکھی۔امریکی حملے میں دو افسروں میجر مجا ہدمیرانی اور کیپٹن عثمان علی سمیت چھبیس فوجی شہید ہوئے۔ پاکستان نے سخت موقف اپنایا۔ نیٹو سپلائی بند کر دی گئی ۔ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت دفاعی کمیٹی کے اجلاس میں سخت موقف اپنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ دفاعی کمیٹی نے 15 دنوں میں امریکہ کوشمسی ائر بیس خالی کرنے کا حکم دیا۔ پاک افغان سرحد پر پاکستان کی چیک پوسٹیں اونچی پہاڑیوں پر قائم تھیں جہاں سے سرحد کے دونوںاطراف آمدورفت کی نگرانی ہوتی تھی۔ امریکی حملے کا واقعہ پاکستان آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اورافغا نستان میں ایساف کمانڈرجنرل جان ایلن کی ملاقا ت کے چھ گھنٹے بعد پیش آیا۔دونوں فوجی جنرلز کے درمیان پاک افغان بارڈر کی مو¿ثر نگرانی پر بات چیت ہوئی تھی۔ امریکیوں کی طرف سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ حملہ دفاع میں کیا گیا ہے۔افغان صوبے کنٹر میں اتحادی فوج پر حملہ ہوا تھا اور نیٹو فورسز نے زمینی فوج کی درخواست پر حملہ کیا ہے۔ امریکی جریدہ ”ٹائم “ دور کی کوڑی لایا ۔جریدے کی سٹوری تھی کہ امریکی ہیلی کاپٹروں نے فوجیوں پر طالبان سمجھ کر حملہ کیا ہے ۔ پاکستان نے امریکہ سے معافی کا مطالبہ کیا جسے امریکی حکومت نے مسترد کر دیا۔ امریکی اپنی کارروائی کو حق بجانب سمجھتے تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ عسکریت پسندوں کے کاروائی کی گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاک فوج کی کارروائیوں کی وجہ سے مہمند ایجنسی میں امن قائم ہو گیا تھا۔پاکستان کے علاقوں میں افغانستان کی سمت سے مداخلت کم ہو گئی تھی۔ پاکستان کیخلاف لڑنے والے دہشت گرد پاک فوج کے گھیرے میں آ گئے تھے۔ نیٹو فورسز کا حملہ دہشت گردوں کو ریلیف اور کمک دینے کےلئے کیا گیاتھا۔ مہمند ایجنسی سے شدت پسندوں کا صفایا کر دیا گیا تھا اور علاقہ مکمل طور پر پاک فورسز کے کنٹرول میں تھا۔نیٹو اور ایساف کو حملے کا بخوبی علم تھا ۔ حملہ غلط فہمی کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ coordinated plan) (منصوبے کا حصہ تھا۔بارڈر پر پاکستان کی چوکیاں بہت پرانی تھیں ۔ شدت پسندوں کے تعاقب کا دعویٰ بھی جھوٹا ہے۔ نیٹو فورسز پر حملے کا ذمہ دار پاکستان فورسز کو قرار دیا گیا۔ نیٹو کو تمام پاکستانی پوسٹوں کے میپ ریفرنسز دئے گئے تھے ۔پوسٹوں کی پوزیشن سے بھی آگاہ کیا گیا تھا۔امریکی فورسز نے پاکستان کے اندر 300 میٹر گھس کر حملہ کیا تھا۔مہمند ایجنسی کا علاقہ شدت پسندوں سے کلیئر تھا اسلئے تعاقب کا بہانہ بھی نہیں کیا جا سکتا ۔افغان بارڈر پر جائنٹ کو آرڈینیشن پوسٹیں قائم کی گئی تھیں جن کی پاکستانی امریکی اور افغانی افواج مشترکہ طور پرنگرانی کرتے تھے۔ امریکی بریگیڈئر جنرل سٹیفن کلارک کی سربراہی میں قائم کردہ انکوائری کمیٹی کی رپورٹ میں سلالہ چیک پوسٹ واقعے کا ذمہ دار پاک فورسز کو ٹھہرایا گیا ۔ بھارت میں26مئی 2008 کو ممبئی میں بم دھماکوں کے نتیجے میں 164افردا ہلاک ہوئے تھے۔ بھارت نے ممبئی بم دھماکوں کا الزام لشکر طیبہ اور پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی پر عائد کیا تھا۔امریکی فورسز نے 26نومبر کو پاکستان کی چیک پوسٹوں پر حملہ کر کے افغانستان میں اپنی پٹائی کی خفت مٹائی تھی اور بھارت کیساتھ اظہار یکجہتی کیا تھا۔ امریکی اور بھارتی سورما پاکستان پر یلغار کے منصوبے بناتے رہتے تھے مگر حوصلہ نہیں پڑتا تھا۔فضائی حملوں اور سرحدی خلاف ورزیوں کے ذریعے پاکستان کے اعصاب چیک کئے جاتے تھے۔ اپر دیر، لوئر دیر ، سوات اور مالاکنڈ میں مداخلت ہو رہی تھی۔ پاکستان کی چیک پوسٹوں پر مسلسل شیلنگ ہو رہی تھی۔ امریکیوں نے معافی مانگنے کی بجائے محفوظ پناہ گاہوں کو ختم کرنے کا مطالبہ جاری رکھا۔پاکستان کو دھمکی دی گئی کہ نیٹو سپلائی کا روٹ بند رہا تو پاکستان کیلئے امریکی امداد پربرا اثر پڑیگا۔پاکستان نے نیٹو سپلائی کا روٹ بند کیا تھا مگر فضائی روٹ بحال رہا 3 جولائی 2012کو امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے سلالہ چیک پوسٹ واقعے پر sorryکیاجس کے نتیجے میں پاکستان کی طرف سے نیٹو سپلائی کھول دی گئی۔ پاکستان سے امریکہ ”ٹو ڈو مور “ کا مطالبہ کر رہا تھا۔افغانستان میں امریکی فوج کے سربراہ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس اور سی آئی اے ڈائریکٹر لیون پینیٹا امریکہ کی تیسری جنگ کو پاکستان میں منتقل کرنے کے منصوبہ ساز تھے۔اوبامہ ا نتظامیہ نے بعد ازاں ڈیوڈ پیٹریاس کو ڈائریکٹر سی آئی اے مقرر کر دیا جبکہ لیون پینیٹا کو ڈیفینس سیکریٹری مقرر کیا۔لیون پینیٹا امریکی ڈرون حملوں کی پاکستان کیخلاف کاروائیوں کا زبردست حامی تھا۔افغانستان میں امریکی فورسز افغان طالبان کے ہاتھوں بد ترین شکست سے دوچار تھیں ۔ امریکی سفارت خانہ، سی آئی اے سنٹرز اور امریکی فوجی اڈے نشانہ بن رہے تھے۔افغان فوجی امریکی فوجیوں پر حملے کرتے تھے۔امریکہ جنگ کا رخ پاکستان کی سمت موڑنا چاہتے تھے۔ پاک فورسز ضرب عضب ، خیبر ون اور خیبر ٹو آپریشنز میں مصروف ہیں ۔امریکی ماضی کی طرح پاکستان پر دہشت گردوں کیخلاف کارروائی نہ کرنے کا الزام لگا رہے ہیں ۔ امریکہ انتظامیہ کی حالیہ رپورٹ میں بھارت کیخلاف پاکستان کی پراکسی جنگ کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ امریکہ میں پاک آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو ” لیجن آف میرٹ“ کا اعزاز دیا گیا ہے مگر یاد رہے امریکہ دوست بھارت کا ہے پاکستان کا نہیں۔افغان صوبے پکتیکا میں بم دھماکہ پاک افغان دوستانہ تعلقات کو سبوتاژ کرنے کی سازش ہے۔ افغانستان کیساتھ سیکورٹی معاہدے کے تحت دس ہزار امریکی افواج افغانستان میں رہیں گی جنہیں ڈرون حملے کرنے اور فوجی کاروائیوں کا اختیار دے دیا گیا ہے۔ امریکی شہ پر بھارت پاکستان کیخلاف محاذ کھولے ہوئے ہیں ۔پاکستان دفاع سے غافل نہیں ہے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام دنیا کا تیز ترین ایٹمی پروگرام ہے۔پاکستان کو امریکہ اور بھارت کے مشترکہ اتحاد سے نبرد آزما ہونا ہے۔