طاقتور ملکوں کو اپنے گریبان میں بھی جھانکنا چاہیے؟

پیرس میں ہونےوالے دہشت گردوں کے حملے میں 128 افراد ہلاک ہوئے ۔ ہم بحیثیت مسلمان اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ایک جانب بحیثیت مسلمان ہمارا مثبت رویہ تو دوسری جانب فرانس سمیت یورپی ممالک میں اسلام اور مسلمانوںکےخلاف نفرت کی آگ کچھ اس انداز سے بھڑکائی جارہی ہے جیسے یہ دہشت گردی ساری دنیا کے مسلمانوں نے مشترکہ طور پر کی ہے ۔ ایک دہشت گرد تنظیم داعش کی کاروائی کو تمام مسلمانوںکا جرم بنا دیناکہاں کا انصاف ہے ۔ اس واقعے کے بعد نہ صرف فرانس میں مسلمانوں کا جینا حرام کیاجارہا ہے بلکہ انہیں نفرت کی علامت بنا کر رکھ دیا گیا ہے ۔ امریکہ کے صدارتی امید وار ڈونلڈٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ وہ صدر منتخب ہوکر امریکہ میں موجود مسلمانوں کی تمام مسجدیں بند کروا دینگے ۔یہ اطلاعات بھی موصول ہورہی ہیں کہ امریکہ ¾ فرانس سمیت یورپی ممالک میں مقامی عیسائیوں اور یہودیوں نے نہ صرف مسلمان ٹیکسی ڈرائیور کے ساتھ سفر کرنے سے انکار کردیا ہے بلکہ مسلم مالکان کے ہوٹلز اور کاروباری اداروں کے ساتھ بھی امتیازی سلوک سننے میں آرہا ہے ۔ انسانیت کے ان نام نہاد ٹھیکیداروں سے میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ انہیں پیرس میں ہلاک ہونیوالے 128افراد کی موت کا تو بہت غم ہے کیا ایک غلط اطلاع کا بہانہ کر امریکہ سمیت تمام یورپی ممالک کی افواج نے مل کر انبیاءکرام کی مقدس سرزمین عراق کو روند کر رکھ دیا۔ اگر پیرس میں مرنے والے 128افراد انسان تھے تو عراق میں مرنے والے9 لاکھ مسلمان انسان نہیں تھے۔ ان کی ہلاکت پر تو کسی کی آنکھوں میں آنسو نہیں آئے ۔شام جو انبیاکرام اور اولیا اللہ کا مسکن ہے جہاں حضرت عیسی علیہ السلام اور امام مہدی علیہ السلام کا نزول ہوگا اس مقدس ملک کو کئی ٹکڑوں میں تقسیم کرکے راکھ کا ڈھیر بنا دیاگیا ہے ۔ آئے روز اسرائیل درندگی کا مظاہر کرتے ہوئے معصوم اور بے گناہ فلسطینیوں کا خون بہتا ہے ۔اسرائیل کےخلاف تو فرانس یا امریکہ نے بمباری کا اعلان نہیں کیا ۔ برما کے ہزاروں مسلمان بدھ دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہوچکے ہیں اور لاکھوں مسلمان اپنے ہی ملک میں بدترین حالات میں زندگی گزار رہے ہیں لیکن امریکہ اور فرانس کو مسلمانوں کی شہادتوں کا کوئی غم نہیں ہے ۔ القاعدہ ہو یا داعش یہ دہشت گرد تنظیموں کی آبیاری امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک نے اپنی سوقیانہ پالیسی کی شکل میں کی ہے ۔ان دہشت گرد تنظیموں میں صرف مسلمان ہی نہیں یورپ اور امریکہ کے شہری بھی دھڑا دھڑ شامل ہورہے ہیں ۔ اگر مسلمان دہشت گرد ہیں تو یورپی ممالک کے باشندے بھی فرشتے نہیں ہیں۔کہاں گئے جنگی جرائم پر مقدمے چلانے والے ۔ کیا ان کو امریکی ¾ برطانوی اور فرانسیسی حکومت کے جرائم اور مظالم دکھائی نہیں دیتے۔ عراق ¾شام ¾ برما اور فلسطین میں ہونے والی بڑی ہلاکتوںپر اقوام متحدہ کا مردہ ضمیر کیوں نہیں جاگا ۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں استصواب رائے کی قرار داد پاس ہونے کے باوجود بھارتی فوج کے ہاتھوں مقبوضہ کشمیر میں اب تک دس لاکھ کشمیر ی مسلمان جام شہادت نوش کرچکے ہیںجبکہ روزانہ ہونے والے مظالم اور شہادتوں کا کوئی حساب نہیں ہے۔امریکہ اور فرانس سمیت تمام سپرطاقتوں نے کشمیر میں استصواب رائے کروانے کی بجائے آنکھوں پر پٹی باندھ کر مذاکرات کی اندھی کھائی میں پھینک رکھا ہے ۔کیا بھارت میں گائے کو ذبح کرنے کے جھوٹے الزام پر انتہا پسند ہندو تنظیموں نے اندھیر مچا رکھاہے اور کتنے ہی مسلمانوںکو زندہ جلا دیا ہے۔ کشمیر اور بھارت میںہونے والی قتل و غارت ¾ اقلیتوں کے خلاف توہین آمیز سلوک ان نام نہاد سپرطاقتوں کی لغت میں دہشت گردی نہیں ہے ۔وہ کام جو یہودی اور عیسائی کرلیں وہ دہشت گردی نہیں بلکہ قانون کی عملداری اور آزادی اظہارہے لیکن اگر کوئی سر پھیرا مسلمان دہشت گردوں کے بہکاوے میں آکر کسی عیسائی یا یہودی کو مارتا ہے تو پوری دنیا کے مسلمانوں کے گلے میں پھندا ڈال کر انہیں دہشت گردوںکی صف میںکھڑا کردیا جاتا ہے ۔ 9/11 کے سانحے میں چند سو افراد مرنے کی آڑ میں پورے افغانستان کو راکھ کا ڈھیر بنانا کہاں کا انصاف ہے ۔پاکستان امریکی جنگ کو لڑتے لڑتے نہ صرف 100 ارب ڈالر کا نقصان اٹھایا چکا ہے بلکہ پچاس ہزار پاکستانی اس وحشت ناک امریکی جنگ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں ۔۔ پیرس سے بھی کہیں زیادہ تکلیف واردتیں پاکستان میں ہونا معمول بن چکا ہے۔ پاکستان نے تو کسی ملک پر حملہ نہیں کیا بلکہ صبر کاگھونٹ پی کر ہر سانحے کے بعد خاموش ہوجاتاہے۔تمام سپر طاقتیں باہم مل کر عراق شام لیبیا اور افغانستان میں جو گل کھلا رہی ہیں اس کے نتیجے میں محبتوں کے پھول نہیںاگیں گے بلکہ نفرتوں کے ایسے آلاﺅ بھڑکیں گے اس لیے میں یہی کہوں گا کہ فرانس اور امریکہ کو جذبات میں آکر داعش پر بمباری کی آڑ میں پوری امت مسلمہ کو باعث نفرت نہیں بنانا چاہیئے بلکہ اپنے گریبان میں جھانک کر بھی دیکھنا چاہیئے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...