تہذیبی ٹکراﺅ کی نئی توجیہات

امریکہ میں 9/11 ہوا پورے کرہ ارض پر بھونچال آ گیا۔ انتقام میں عراق کی پوری کار آمد باصلاحیت نسل لقمہ اجل بنا دی گئی، خطہ عرب کو کڑاہی میں ڈال کر اس کے اپنے تیل میں تلا جا رہا ہے، تیونس، لیبیا، مصر کی مقبول قیادتیں ختم کر کے عملاً انارکی بے یقینی طار کر دی گئی، شام کی جڑیں کھوکھلی کی جا رہی ہیں، سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کے گلے میں حوثی شکنجہ کس دیا گیا اب فرانس میں 13/11 کے بعد شاید باقی ماندہ مسلمان ملکوں خصوصاً ترکی پر نزلہ گرانے کا پروگرام ہے۔ روسی مخاصمت کے بہانے تہذیبوں کے ٹکراﺅ کا جو تصور ہنٹگٹن نے پیش کیا تھا اسکی نظری تکذیب تو کب کی ہو چکی مگر اس نظریے کو مذاہب خصوصاً اسلام اور عیسائیت کے ٹکراﺅ میں تبدیل کرنے کی یہودی سازش عروج پر ہے۔ اکلوتی سپر پاور کے سر پر کلغی کی طرح براجمان سانپ کی کنڈلی نے اب یورپ کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ اب یورپ مذہبی ٹکڑاﺅ کے نرغے سے نکل نہیں سکتا۔ وہ یورپ جہاں سے اکا دکا آزاد خارجہ پالیسی اور لبرل ازم کی آواز اٹھتی رہتی تھی اس پر مکمل غلبے کیلئے داعش کے زیراہتمام 13/11 کا کچوکا لگایا گیا ہے۔

یہودی ریشہ دوانیاں اپنی جگہ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے مسلمان کیا کر رہے ہیں؟ سراسر احساس زیاں سے بے بہرہ ”بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست“ کی عملی تصویر، مسلمانوں کی بے عملی بھی اپنے عروج پر ہے۔ راکھ کے ڈھیر میں شعلہ ہے نہ چنگاری ہے طرفہ تماشا یہ کہ عیسائی بھی اپنے نبیؑ کی تعلیمات سے لا تعلق اور بے بہرہ دکھائی دیتے ہیں۔ عددی لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہونے کے باوجود یہ یہودی تعصب کا یرغمال بنا ہوا ہے یہودیوں کی نفسیات تو سمجھ آتی ہے کہ نسلی برتری، کرہ ارض پر تسلط کا خواب اور تاریخ کے مسلسل تھپیڑوں نے اس قوم کے مزاج کو بگاڑ دیا ہے کیونکہ نہ تو انکے اہداف پورے ہونا ممکن ہیں اور نہ ہی ماضی کے اندھیاروں کا کوئی علاج ممکن ہے بجز اسکے کہ یہ قوم اپنے نبیوںؑحضرت داﺅدؑ، حضرت سلیمانؑ کے دین کی جانب نیک نیتی سے لوٹ آئے۔
یہاں یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ تہذیبی یا مذہبی ٹکراﺅ کے تینوں فریقوں کی چاروں آسمانی کتابیں نہ صرف مماثل و منطبق ہیں بلکہ ان کی تعلیمات حیرت انگیز طور پر ایک دوسرے کی تصدیق و تائید کرتی ہیں۔ توریت، زبور، انجیل، (بائبل) اور قرآن میں گونہ مماثلت اور یکجہتی ہے چیدہ یہودی، عیسائی علماءاور دانشور اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ ہیں مگر شاید سپر پاور کی ریاستی ڈپلومیسی اور یہودی گٹھ جوڑ انکے تجاہل عارفانہ کی آڑ بنا ہے۔ عیسائی عوام پر یہودی سازش کا صدیوں پر محیط پردہ انہیں سابق و سباق کی صحیح سچی تصویر دیکھنے پر مائل ہی نہیں کرتا۔ حالانکہ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ یہ یہودی راہب اور علماءہی تھے جنہوں نے حضرت عیسیٰ کی ولادت کو استہزاءکا نشانہ بنایا اور انکی تعلیمات کو جھٹلایا جب ان کے پیروکاروں میں اضافہ ہوا تو انہیں مصلوب کر دیا۔ جب تک قرآن نازل نہیں ہوا تب تک حضرت عیسیٰ کی ولدیت ایک زہریلی بحث کے طور پر وجہ نزاع تھی۔ پھر دین مبین اسلام نے حضرت عیسیٰ کی سچائی پر مہر تصدیق ثبت کی اور عیسائی مذہب کی تعلیمات کو تائید جدید سے نوازا۔
آیئے ذرا خالصتاً بائبل کی تعلیمات کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ قرآن اور دیگر تین الہامی کتابوں کی مماثلت موجودہ دور کے انسان کی کس طرح رہنمائی کرتی ہے۔ (یہ اقتباسات بائبل سے لئے گئے ہیں)
”غریب، دکھی، بھوکے، سچائی کے پرستار اور نرم دل انسان ہی بالآخر خدا کے ہاں بہتر بدلہ پا کر سرفراز ہوں گے۔ وہ لوگ جو شر سے لڑ کر جان دے دینگے خدا کے ہاں ابدی زندگی کے حق دار ہوں گے۔ خدا نے مجھے رسولوں کی باتوں کی نفی کےلئے نہیں بھیجا بلکہ میں بھی انہی کی طرح خدائے واحد کی حاکمیت اور برتری کا پیغام لے کر آیا ہوں۔ اگر تمہارا بھائی تمہاری گال پر چپت لگائے تو دوسرا رخسار اسکے سامنے کردو۔ اپنے اقرار کو اپنے عمل سے ظاہر کرو اور منافقت نہ کرو۔ تمہارا خدا تمہیں ہر جگہ دیکھتا ہے گو تم اسے نہیں دیکھ سکتے۔ نیکیوں کے خزانے جمع کرو جنہیں نہ زنگ لگتا ہے نہ دیمک کھا سکتی ہے۔ قیامت پر ایمان رکھو کیونکہ وہی تمہارے درمیان حتمی نتھارے کا دن مقرر ہے تحقیق و جستجو کرو تاکہ تم پر حقائق کے دروازے کھول دیئے جائیں۔ جو شخص میری باتوں یعنی خدا کے احکام پر اپنے کردار کو قائم کرتا ہے مضبوط چٹان پر گھر بناتا ہے جسے کسی طوفان کا ڈر نہیں۔ گندے ہاتھ سے کھایا کھانا غلیظ نہیں ہوتا البتہ گندی نیت، قتل، جعلسازی، فریب، زنا، چوری، جھوٹی شہادت اور برے عمل کے ذریعہ کمایا ہوا خوبصورت اور خوش ذائقہ طعام اگر صاف ستھرے ہاتھوں سے بھی کھایا جائے تو غلیظ اور مکروہ ہوتا ہے۔ جس طرح گڈریا کھوئی ہوئی بھیڑ کو پا کر خوش ہوتا ہے اسی طرح خدا اپنے نافرمان کے مطیع ہو جانے سے خوش ہوتا ہے۔ قیامت کے دن انسانوں کی فصل کٹے گی بہتر اور پھلدار پودوں کے بیج کو پھر سے ابدی زندگی عطا کر دی جائے گی جب کہ خاردار اور بے ثمر پودوں کو فنا کر دیا جائےگا“۔
یہ اقتباسات تو دیگ میں سے چند چاول ہیں ذرا ملاحظہ کیجئے رشدو ہدایات کے ان منبوں سے یہودی عیسائی اور مسلمان کیا سلوک کررہے ہیں۔ اس ضمن میں خلاصہ کے طور پر محمد عربی کے آخری خطبہ کا حوالہ بطور خلاصہ کے بے جا نہ ہوگا۔ کیا ان الہامی تعلیمات کے مقابلے میں تہذیبوں یا مذاہب کے ٹکراﺅ جیسی منفی تحریروں اور فلسفوں کی کوئی اہمیت ہے؟ یہودی راہبوں کے ساتھ مناظرے میں پوچھا گیا کہ خدا کے احکام میں سے افضل ترین حکم کیا تو حضرت عیسیٰ نے جواب دیا کہ انسان دل دماغ اور روح کی گہرائیوں سے خدا کی اطاعت اور اپنے جیسے انسانوں سے محبت کرے۔ اس حتمی حکم کے بعد جنگ، قتل وغارت ایک خدا کو ماننے والوں کے درمیان مخاصمت! چہ معنی دارد؟؟

ای پیپر دی نیشن