کارل پاپر کے نظریات نے سیاست کی دنیا کو بے حد متاثر کیا۔ اس کے نزدیک ’’سچ‘‘کے قریب ہونے کا عمل انسانوں کی سوچ اور فکر سے ہو کر گزرتا ہے۔ معاشرہ جوں جوں ’’سچائی‘‘ کو پا لیتا ہے۔ حقیقت سے قریب تر ہو جاتا ہے۔ اسی سوچ کی بنیاد پر سیاست میں یوٹو پیائی نظریات کی ہمیشہ اس نے حمایت کی اس میں جمہوریت اور آزادی کا تصور موجود ہے اور اسی نظریہ سے بہترین جمہوری روایات کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔ پاکستان کے تاریخی تجربے نے اسی بات کو اجاگر کیا ہم جمہوری روایات کی بجائے اس روایتی جمہوریت کی بنیاد رکھ چکے ہیں۔ جس میں ہمیں نہ صرف فسطائی رجحانات ملتے ہیں۔ بلکہ عوامی فلاح و بہبود کا شائبہ تک نہیں ہے۔ جمہوری روایات کیلئے کارل پاپر دو بنیادی اصولوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ اول یہ کہ کسی بھی شخص، جماعت یا ادارے کو اس بات کا اختیار نہیں کہ وہ نام نہاد اعلیٰ اقدار، اقتصادی ترقی یا قومی مفادات کا نعرہ لگا کر یا آئینی ترامیم کے ذریعے جمہوری اداروں کو زیر نگیں رکھنے کی کوشش کرے۔ دوم یہ کہ سچ اور بہتر معاشرہ کوئی ایسی شے نہیں کہ جو کہیں پڑے ہوئے مل جائیں اور جن کو کسی مخصوص وقت اور مقام میں حاصل کر لیا جائے اور نہ ہی آئیڈیل معاشرے اور انسانوں کی تلاش میں جمہوریت اور بنیادی حقوق کی قربانی دینا دانش مندانہ فعل ہوا کرتا ہے۔ بلکہ ایسی کاوشیں فسطائی رجحانات کی پیداوار ہیں۔ پاکستان کے سماجی اقتصادی اور سیاسی مسائل عدلیہ کی آزادی اور فعالیت کے بغیر ممکن نہیں۔ یاد رہے کہ عدالت کے فیصلوں پر استحکام کی عمارت استوار ہوتی ہے۔ یا پھر یوں ہوتا ہے کہ ہم اداروں کی فعالیت پر زور دیتے ہیں۔ صالح معاشرہ کے خواہاں ہوتے ہیں۔ مسیحا کے منتظر رہتے ہیں کہ وہ جادو کی چھڑی سے معاملات کو پلک جھپکتے درست کر دے گا۔ لیکن عدلیہ خود مختار اور فعال طریقے سے کام نہیں کرتی تو ہمارے سارے خواب چکنا چور ہو جاتے ہیں۔ ہماری سوچ اس بات کی غماز ہوتی ہے کہ ہم سیاسی نظام نیز مملکت کے اداروں کے کردار اور حدود کو سمجھنے میں مسلسل غلطی کر رہے ہیں۔ اسی سوچ کی بنیاد پر ہم یا تو سیاستدانوں اور جمہوریت کو سرے سے رد کر دیتے ہیں۔ یا ان سے اتنی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں کہ ان پر پورا اترنا کسی سیاسی نظام یا سیاستدان کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ درحقیقت یہ سب غیر عدالتی نظام کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں پانامہ لیکس کا معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچ چکا ہے اور بیس کروڑ عوام کی نظریں اس فیصلے کی منتظر ہیں۔ جو حقیقت سچ اور سچائی پر مبنی ہو جس سے اس حق اور سچ معاشرے کی بنیاد پڑ سکے کہ جس سے معاشرے میں انتشار اور بے یقینی کی بجائے استحکام پیدا ہو اور عدالتی روایات مضبوط تر ہوں قیام پاکستان سے لے کر اب تک جن حالات نے عوام کی سوچ کو پختہ کیا اور سیاسی لحاظ سے باشعور کیا۔ وہ ان کی حقوق کیلئے جدوجہد ہے جن سے ان کو وقتاً فوقتاً محروم رکھا گیا۔ تاریخی حقائق اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ریاستی ادارے بہت فعال نہ بھی ہوں اور جمہوری روایات ڈھیلی ڈھالی شکل میں ہی کیوں نہ ہوں تب بھی بنیادی حقوق کی فراہمی، آزادی جمہوری پراسیس اور عدلیہ کی خودمختار حیثیت سے بہتر نتائج اخذ کئے جا سکتے ہیں، یہ اسی صورت میں ہو سکے گا کہ سیاسی عمل میں مصنوعی انداز میں رخنہ ڈالنے کی روایات ختم ہو جائیں۔ ماضی کے تجربات سے سبق حاصل کیا جائے اس مائنڈ سیٹ کو تبدیل کیا جائے جو ہماری روایات کا حصہ ہے اور مواخذہ اور جوابدہی کا اصول مد نظر رکھا جائے تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان میں گزشتہ ستر سالوں سے جس قدر تجربات ہو چکے ہیں۔ اس سے نہ تو پہلے کبھی کسی کو فائدہ ہوا ہے اور نہ ہی آگے چل کر ہو گا۔ابن خلدون کے مطابق مسلسل عدم استحکام اور روایتی طریقہ کار قوموں کو اس مقام پر لاکھڑا کرتے ہیں کہ جہاں تبدیلی اور مثبت اقدامات کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہوتا۔ آج ہم اسی مقام پر کھڑے کسی مثبت تبدیلی کے منتظر ہیںٖ!!!