مصر میں ایک اور گزشتہ روز پاکستان میں دو (پشاور اور کوئٹہ) خودکش حملوں اور دھماکوں میں سینکڑوں افراد جاں بحق اور زخمی ہوئے۔
دہشت گردی عالمی مسئلہ اختیار کر گئی ہے۔ البتہ دہشت گردوں کا خصوصی ہدف پاکستان اور بعض دوسرے اسلامی ملک ہیں۔ مغربی ملک اور امریکہ بھی اس کا ہدف بنتے رہتے ہیں‘ اس فرق کے ساتھ کہ اسلامی ملکوں میں دہشت گردی کی وارداتیں کرنے والے نام نہاد مسلمان کہلاتے ہیں جبکہ امریکہ‘ نیدرلینڈ‘ سپین اور برطانیہ میں ایسے لوگ بھی ملوث پائے گئے ہیں جو عیسائی یا غیر مسلم تھے۔ نائن الیون کے سانحہ کے ضمن میں افغانستان پر امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں کے حملے کے بعد جنم لینے والی دہشت گردی نے پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ پاکستان نے 2014ءمیں آپریشن ضرب عضب شروع کیا اور پاک فوج نے یہ جنگ بڑی جانبازی اور مہارت کے ساتھ لڑی۔ یہاں تک کہ دہشت گردوں اور ان کے ٹھکانوں کا بڑی حد تک صفایا کر دیا۔ شدت پسندوں کی ایک بڑی تعداد اور ان کے لیڈر افغانستان فرار ہو گئے‘ جہاں انہیں پاکستان دشمنی کی تسکین کے لئے محفوظ ٹھکانے فراہم کر دیئے گئے۔ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں پاکستان کے ستر ہزار فوجی اور شہری شہید ہوئے۔ معیشت کو گیارہ سو ارب ڈالر کا نقصان پہنچا۔ کم و بیش افغانستان کا بھی دہشت گردی کے ہاتھوں یہی حال ہو رہا ہے۔ یہی حالات اسلامی ملکوں خصوصاً فلسطین‘ شام‘ ترکی اور اب سعودی عرب میں بھی پائے جانے لگے ہیں۔ اگرچہ پہلے ان ملکوں میں دہشت گردی کی ذمہ دار القاعدہ تھی‘ اب داعش ہے۔ عراق میں پیدا ہونے والی داعش کی کارروائیوں کی زد میں افغانستان‘ پاکستان اور مغربی ممالک بھی آنے لگے ہیں۔ علاقائی یا عالمی سطح پر تعاون نہ ہونے کے باعث شدت پسندی کو فروغ ملا۔ یہ بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ ہمسایہ ملکوں افغانستان اور بھارت نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی اس طرح مدد نہ کی جس طرح کہ کرنی چاہئے تھی بلکہ بھارت نے تو اس جنگ میں روڑے اٹکائے اور اسے ناکام بنانے کے لئے مشرقی سرحدوں کو غیر محفوظ بنا دیا تاکہ پاک فوج کی توجہ اُدھر سے ہٹ کر اِدھر ہو جائے۔ افسوس تو یہ ہے کہ بہت سے تلخ تجربات اور جانی و مالی نقصانات اٹھانے کے باوجود عالمی برادری نے سبق نہیں سیکھا۔ اس عفریت سے نجات کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ عالمی سطح پر اقوام متحدہ کی طرز کا بین الاقوامی ادارہ برائے انسداد دہشت گردی بنایا جائے۔ پاکستان کے تجربات سے استفادہ کیا جائے۔ دہشت گردوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لئے نیشنل ایکشن پلان طرز کے ادارے تشکیل دیئے جائیں جو دہشت گردوں کو کارروائی سے پہلے ہی گرفت میں لے لیں۔ اگر بین الملکی تعاون کی راہ اختیار نہ کی گئی تو تمام ممالک نقصان اٹھاتے رہیں گے۔
دہشت گردی: بین الاقوامی اتحاد کی ضرورت
Nov 26, 2017