فلسفی حکمران اور ریاست

کوئی فرد اپنی ذات کے حوالہ سے آج کی دنیا میں خود کوئی نظریہ ہو سکتا ہے۔ اس کا سیدھا جواب نفی میں دیا جا سکتاہے۔ کیا کبھی نظریاتی غیر نظریاتی ہو سکتا ہے تو اس کا جواب بھی بآسانی نفی میں دیا جا سکتا ہے۔ غیر نظریاتی کا نظریاتی ہونا ایک معمول کی بات ہے۔ ہمارے خالق و مالک رب کائنات نے فرد اور سماج کے تعلق کو بھی واضح کر رکھا ہے۔ ہر فرد اپنے معاملات اور اعمال کا خود ذمہ دار ہے اور ہر کسی کو جماعتی نظم و ضبط کا پابند ہونا پڑتا ہے۔ ہمارے دین میں کسی دوسرے کی غلطیوں ، گناہوں یا کمزوریوں کی ٹوہ لگانے سے نہ صرف رد بلکہ سختی کے ساتھ روک دیا گیا ہوا ہے۔ مسلم معاشرہ اسلامی اصولوں سے بالاتر ہو ہی نہیں سکتا ۔ کوئی معاشرہ بھی سماج کے اصولوں اور روایات سے انحراف نہیں کرنے دیتا ہے کیونکہ افراد کا روز مرہ زندگی میں مسائل سے دو چار ہونا لازمی امر ہے۔ انسان کی سماجی ضروریات بھی بنیادی ضروریات کا حصہ ہیں اور ان کو پورا کرنے کیلئے گھر ، خاندان ، عزیزو اقارب ، دوست احباب، ہم خیال غرض سبھی طرح کے لوگوں کے ساتھ نبھا کرنا پڑتا ہے۔ ہر کسی کے کچھ نہ کچھ فرائض ہوتے ہیں اور اسی طرح کچھ حقوق بھی۔
نہ تو ہر کسی کے حقوق برابر ہیں اور نہ ہی فرائض جو جتنا ذمہ دار ہے اسکے فرائض اتنے ہی زیادہ ہیں۔ ہر سماج اور معاشرہ کو یکساں رکھنے کیلئے اختیار کیا جانےوالا اصول ہے عمرانیات کی تعلیم یہ بتاتی ہے کہ وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ سماج بدلتا رہتا ہے۔ سماج کا بدلنا ایک عمل ہے اور یہ عمل ازل سے شروع ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔
اگر ہم خاندان، معاشرہ، سماج ، قبائل، ملک ، ریاست کا تفصیلی جائزہ لیں تو ہر شے کی حقیقت ہمارے سامنے عیاں ہو جاتی ہے۔ معاشرہ کی تشکیل تحفظ کیلئے بھی نہیں بلکہ پر امن بقائے باہمی کے اصول پر زندگی بسر کرنے کےلئے وجود میں آیا تھا۔ یہ کمزوروں نے طاقتوروں کےخلاف تشکیل دیا تھا اور ہر کسی نے اسکے اصول اور ضابطے تسلیم کر لئے تھے چونکہ زمانہ تبدیل ہوتا رہتا ہے اس لئے اقدار بھی شامل ہوتی رہیں مگر احتساب اور نظم کا نظام کسی نہ کسی صورت میں برقرار رکھا جاتا رہا۔ ارشاد ربانی ہے کہ ”کیا انسان نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ شترِ بے مہار ہے“۔ایبٹ آباد میں سابق وزیراعظم نواز شریف نے خود کو ایک فلسفہ ، نظریہ اور سوچ کا نام دینے کی کوشش کی ہوسکتا ہے کہ وہ فلسفی کا روپ اختیار کرکے کسی نظریہ کو تخلیق کرنے کی صلاحیت کے مالک بن گئے ہوں یا بننے کے قریب ہوں۔ یہ درست ہے کہ عظیم انسان کبھی تو فلسفی ، سائنسدان یا سیاسی شخصیت کے طور پر پیدا ہوئے ہوں اور انکی سوچ بچار ، ایجادات ، فکروعمل نے انداز حکمرانی اور طرز زندگی نے انسانی زندگی کی کایا پلٹ دی ہو اور پھر ان شخصیات نے سماجی ، معاشی ، معاشرتی ، سائنسی تحریکوں کے ذریعہ جنگ کا راستہ اختیار کرکے یا صلح اور امن کے ذریعہ ایسی تحریک پیدا کی ہو کہ عوام الناس یکسو ہو کر ایسی قیادت کا حکم بے چون و چر امان لیتے ہوں۔ سماج ، معاشرہ ، ریاست کو اگر غیر متزلزل قیادت نصیب ہو جائے تو ترقی قدم چومتی ہے۔ قائدین امر ہو جاتے ہیں اور آخر کسی غلطی کے باعث معاشرہ میں بگاڑ آجائے تو قوموں کے زوال کی لاتعداد مثالیں تاریخ کے اوراق میں تمسخر آڑاتی ہیں۔
قرآن حکیم خود بھی قومی کی تباہی کا ذکر کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کی نشانیوں میں دن اور رات کا ذکر بھی کرتا ہے ۔ ریاست مدینہ میں احتساب کا نظام مثالی بنا کر تاریخ میں لازوال مثال کے طور پر قائم کیا گیا تھا۔ خدا پر یقین رکھنے والے جہاں عزت و ذلت کو آسمانی فیصلہ تسلیم کرتے ہیں وہاں حکمرانوں کے کڑے احتساب کی مثال بھی واضح کرتے ہیں۔میاں نواز شریف نے تین بار اقتدار کی منازل طے کیں ہر بار کچھ نہ کچھ ایسا ہوا کہ اقتدار نہ صرف ختم ہوا بلکہ تلخ یادیں بھی چھوڑ گیا۔ وہ غلطیوں اور نفرتوں سے پاک تو نہیں مگر ہر بار ہدف تنقید بنے اور انہوں نے بھی طنز اور تنقید کے تیر پوری شدت کے ساتھ اپنے مخالفین کے سینوں میں پیوست کئے۔ابن خلدون نے تحریر کیا تھا کہ یاد رکھیے بدلتے ہوئے زمانوں میں اقوام عالم کے حالات بھی بدلتے رہتے ہیں اور انکے اخلاق و آداب، اطوار، طریقے اور تہذیب و تمدن حالت پر باقی نہیں رہتے بلکہ زمانے کیساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں اور پھر جس طرح یہ تغیرات لوگوں میں، اوقات میں ،شہروں میں رونما ہو تے ہیں اسی طرح دنیا کے ہر کونے ، گوشے، ہر زمانے میں اور ہر حکومت میں رونما ہوتے ہیں۔ یہ اللہ کا ایک طریقہ ہے جو اسکے بندوں میں چلتا رہتا ہے دیکھیے پرانے زمانے میں پارسی، سریانی، قبطی، یمنی، اسرائیلی اور نبطی قومیں آباد تھیں۔
افلاطون نے ریاست کو ایک عضو قرار دیا جو بذات خود ایک نصب العین ہے۔ افلاطون کی مثالی فکری ریاست کو اسکی نگاہ سے انسان دیکھے تو بہت کچھ واضح ہو جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ مثالی ریاست کے تمام اعضا انسانی جسم کی مانند ہیں اور ایک دوسرے کےساتھ منسلک اور مربوط ہیں جس طرح انسان کا کوئی عضو کٹ کر کوئی کام سرانجام نہیں دے سکتا اسی طرح ، ریاست کا کوئی عضو تنہا اور آزاد حیثیت میں کوئی وظیفہ سرانجام نہیں دے سکتا۔افلاطون نے ریاست میں مطلق انسان فلسفی بادشاہ، حکمران طبقہ، فوجی طبقے اور محنت کش طبقے کا مخصوص کردار متعین کر رکھا ہے۔ اسکے نزدیک عدل یہ ہے کہ ہر طبقہ کو جو ذمہ داریاں سونپی جائیں وہ ان کو دیانت داری سے سرانجام دے۔ افلاطون کے فلسفیانہ نظام کے مطابق فرد بذات خود مکمل نہیں اور تمام اداروں اور افراد کی تکمیل ریاست کیساتھ ہی پوری ہوتی ہے۔آج کے دور میں ریاست کے کم از کم تین ستون متعین کئے جاتے ہیں عدلیہ ، مقننہ اور انتظامیہ ، لیکن ایک غیر سیاسی مگر نہایت منظم گروہ ہے جس کو فوج کہا جاتا ہے۔ ہر ملک کے حالات کے تحت فوج اپنی ذمہ داریاں ادا کرتی ہے۔ مارشل لا کا ہم تجربہ کرچکے، جنرل کیانی کے غیر سیاسی مگر مکمل سیاسی کردار تو پرویز مشرف ، زرداری اور میاں نواز شریف نے بھی خود دیکھا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ کے منظر عام پر موجود فلسفی اور پس منظر میں رہنے والے فلسفی جس بیانیہ کو عام کر اور کروار رہے ہیں اس میںبالواسطہ طور پر عدلیہ، افواج پاکستان، انتظامیہ اور نہ جانے کون کون محسوس اور غیر محسوس طور پر نشانہ پر ہیں۔ اگر یہ بیانیہ کامیاب ہو گیا اور اگلے انتخابات میں مسلم لیگ ن بھاری اکثریت سے جیت گئی تو انتخابات کے ایک سال واقعات کیا رخ اختیار کرینگے اور کیا پاکستان ایک مثالی فلسفی ریاست کی تشکیل چاہنے والوں کو خواہشات کے مطابق اسی دستور پاکستان کے تحت ترقی کی راہوں پر گامزن ہوگا۔ یا پھر اس بیانیہ کے ناکام ہونے کی صورت میں اتنی گنجائش باقی ہوگئی کہ کسی نئے فلسفی کے بیانیہ پر عمل ہوگا۔ یہ تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ یہ بیانہ جس کی تشہیر سوچی سمجھی سکیم کے تحت ہو رہی ہے کامیاب ہو جائے تو کیا پھر دنیا، معاشرہ ریاست سب کچھ رک جائیگا اور نظام کی کوکھ میں سے ایک نیا نظام جنم لے گا یا پھر دنیا کی اب تک کی تاریخ کے نتیجہ میں ایک نیا عمرانی معاہدہ، ایک نیا سیاسی نظام، پرانی ریاست کی کوکھ سے نئی ریاست نئی جیت کےساتھ منظر عام پر آئےگی۔ اگر نئے عمرانی معاہدہ کی ضرورت ہے تو یہ بھی فلسفی نواز شریف کو‘ جو یقیناً فلسفی ہو سکتے ہیں بتانا ہوگا کہ وہ کیسا ہوگا اور اس پر اتفاق بھی انہی دنوں میں کرنا ہوگا تاکہ دستور پاکستان کی شرائط کے مطابق اس میں تبدیلی کر لی جائے۔ پیپلزپارٹی غیر مشروط اقدامات کر کے بھی نئے دستور نئے نظام یا نئے عمرانی معاہدہ کو نہ مانے گی۔ وہ مذہبی سوچ جو ان دنوں اسلام آباد کی سڑکوں پر دیکھی سنی یا محسوس کی گئی ہے اس کا رد عمل کیا ہوگا۔ یہ تو ایک خاص مسلک ہے دیگر بھی تو اپنے ہونے کا احساس دلانے کی سکت اور ہمت رکھتے ہیں۔ کم آبادی کے صوبے انکے نمائندے کیا رد عمل لے کر ظہور پذیر ہونگے۔ یہ بات تو سبھی تسلیم کر لیں گے کہ فلسفی فکر ، علم، تجربہ اور بے شمار دیگر عوامل کے بعد کوئی شخص بنتا ہے مگر فلسفی سب کچھ لب پر لا کر اس سوچ کو عام کرتا ہے ۔ ذو معنی فقروں سے نظام میں بڑی تبدیلی نظر نہیں آتی مگر دیدہ و بینا بھی ہوتے ہیں اور مولانا کوثر نیازی مرحوم نے اس عنوان سے ایک کتاب بھی تحریر کی تھی۔

ای پیپر دی نیشن