فیض آباد دھرنا ایک ایسا حساس معاملہ تھا کہ جس میں مسلمانوں کے دل اپنے دماغ سے الجھ رہے تھے۔ ختم نبوت کے عظیم ترین عقیدے پر ہر مسلمان جان نچھاور کرنے کو تیار ہے اس میں تو کوئی شک نہیں ۔ مگر مذہبی جماعت کا دھرنا ایک ایسے معاملے پر اور ایسے وقت میں سامنے آیا کہ ہمارے دل تو اس احتجاج کے ساتھ ہیں مگر ہمارے دماغ ہمیں بار بار خبر دار کر رہے تھے کہ معاملہ محض مذہبی نہیں سیاسی بھی ہے.
ختم نبوت کے عقیدے کے متعلق ووٹروں کے حلف نامہ کو انتخابی اصلاحات کے قانون میں جس طرح تبدیل کیا گیا تھا احتجاج کے بعد اس قانون کو اسی طرح بحال بھی کر دیا گیا ہے مگر اس کے باوجود اس قانون میں تبدیلی کرنے والوں کی نشاندہی ایک مطالبہ ٹھہری۔ اگر قانون میں تبدیلی واپس نہ لی جاتی تو احتجاج قابل فہم تھا اور اس کے لئے ہم جیسے عام شہری بھی پر امن انداز سے احتجاج کرنے پر بر حق تھے۔ایک درست شدہ غلطی کے ذمہ داروں کے محض تعین کے لئے ایسا احتجاج اور اسکے باعث ہونے والے آپریشن سے پیدا ہونے والی صورتحال قابل فہم نہیں۔
اس تمام صورتحال میں قومی ایکشن پلان کے تحت شدت پسندی کے بیانیے کی حوصلہ شکنی سے متعلق تمام کوششیں ضائع ہوتی نظر آ رہی ہیں. اور اسکی ذمہ داری تمام سیاسی جماعتوں اور بعض اور لوگوں پر بھی آتی ہے جو اقتدار کی اس گھٹیا جنگ میں معاشرے کو آگ میں جھونکنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ جسکو جب بھی موقع ملا تو اس نے اپنے اقتداراور اختیار کی خاطر مذہب کا استعمال کیا جس کی جھلک ہمیں بعض متنازع بیانات سے لے کر پریس کانفرنسوں میں بھی نظر آتی رہی اس جنگ میں چند مذہبی شخصیات اور گروپوں کو بارود کی صورت ایسے استعمال کیا گیا کہ جن کی بھڑکائی ہوئی چنگاری نے نبی کریمکی ذات مبارک سے محبت کرنے والے عام اور معصوم شہریوں کو بھی سٹرک پر نکلنے پر مجبور کر دیا۔
یہ مسلمان شہری صدق دل سے اپنے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں مگر یہ نہیں جانتے کہ انکے ان سچے جذبات پر جو اقتدار کی سیاست کی جا رہی ہے وہ سیاست جس میں اقتدار ایک سیاسی جماعت سے دوسری سیاسی جماعت اور اختیار ایک ادارے کے ہاتھ سے نکل کر دوسرے ادارے کے ہاتھ میں تو جا سکتا ہے مگر ان معصوم شہریوں کے ہاتھ انکے اپنے"اطمینان قلب"کے علاوہ کچھ نہ آئے گا اور یوں وہ اقتدار کی جنگ کا چارہ بنتے رہیں گے۔
احتجاج کرنے والے مذہبی لیڈران نے اپنے ٹی وی انٹریوز میں یہ واضح کیا کہ وہ آئندہ الیکشن میں پورے پاکستان سے حصہ لیں گےاور ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب پاکستان ایک اسلامی جمہوری ملک ہے اور ختم نبوت پر یقین نہ رکھنے والوں کو ہمارا آئین باقاعدہ طور پر غیر مسلم قرار دیتا ہے اور اس وقت ایسی کوئی قانون سازی نہیں کی جا رہی جس سے ختم نبوت کے قانون پر کسی قسم کا اثر پڑتا ہوتو ایسی صورتحال میں کچھ شہروں میں ہونے والے پر تشدد مظاہروں کا کوئی ٹھوس جواز نہیں بنتا۔
سوائے اس کے کہ پنڈی اسلام آباد کے دھرنے کو منتشر کرنے کے لئے جو آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی شاید اسکے بجائے وفاقی حکومت اور پنڈی اسلام آباد کے لاکھوں شہریوں کو کچھ دن اور صبر کر لینا چاہیے تھا۔
ستم ظریفی یہ بھی ہے جن شہریوں اور مسافروں کو اس مذہبی دھرنے سے مشکلات کا سامنہ تھا انہی میں سے کچھ شہری آپریشن کے خلاف سڑکوں پر ہیں ، اپنے ہاتھ سے اپنے گھر کو آگ لگا رہے ہیں اور اپنے راستے خود ہی بند کر رہے ہیں.ہر ایسے آپریشن کے بعد ہم سب حکومت کی کوتا ہیوں کا ذکر کرتے ہیں مگر یہ نہیں بتاتے کہ کون سی والی حکومت۔ پاکستان میں بیک وقت کوئی ایک حکومت ہو تو اسکی کامیابی یا کوتاہی پر رد عمل بھی دیا جا سکے۔ یہاں پر تو خود حکومت کے ماتحت کچھ محکمے اپنے آپ کو عدلیہ اور پارلیمنٹ جیسا آئینی ادارہ قرار دے کر برابر کی خود مختاری اور اختیارات کے دعوے دار بنتے ہیں. ایسے میں سیاسی عدم توازن یا انتشار کو کس حکومت کی ناکامی اور کون سی حکومت کی کامیابی سمجھا جائے۔
1988 کے بعد آنے والے نام نہاد جمہوری ادوار میں ہماری اسٹیبلشمنٹ نے افسوسناک کھیل ڈھکے چھپے کھیلا آج وہی کھیل کھلے میدان میں کھیلا جا رہا ہے۔ذرائع کے مطابق مذہبی جماعت کے دھرنے کے دوران اہم اجلاس میں ایک طاقتور خفیہ ادارے کے آفیسر نے حکومت کو خفیہ معلومات دینے کی بجائے بے دھٹرک دھرنے والوں کا بنیادی مطالبہ دہرایا کہ وزیر قانون مستعفی ہوں اور کہا کہ اسکے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔اس خفیہ اہلکار کی اس بات پر حکومت کے نمائندوں نے احتجاج کیا اور کہا کہ آپکا کام حکومت کو سیاسی مشورے نہیں بلکہ وہ معلومات دینا ہے جن پر ضروری فیصلے کیے جا سکیں.
اداروں کے درمیان اعتماد کی یہ صورتحال ہو تو امن و امان کی صورتحال میں محض نظر آنے والی حکومت کو مو¿رد الزام ٹھہرانا کون سا تجزیہ ہے. اس میں بھی کوئی شک نہیں حکمران جماعت اپنا دل بڑا کر کے کچھ بروقت بڑے فیصلوں کے ذریعے موجودہ صورتحال پر قابو پا سکتی تھی اور ابھی بھی ایسے فیصلوں کے لئے وقت باقی ہے.ختم نبوت کے قانون میں سہواً تبدیلی واپسں لینے کے بعد محض ایک فرد واحد وزیر قانون کو ہدف بنانا شائد درست نہیں تھا . ویسے بھی اتنے اہم اور نازک معاملے پر ذمہ داری تو پارلیمان کی اس پوری کمیٹی کو تسلیم کرنی چاہیے تھی جس میں تمام پارٹیوں کے نمائندے شامل تھے۔
غلطی قانونی جرم نہ بھی سہی اخلاقی اور دینی اعتبار سے شرمندگی کا باعث ضرور تھی۔ ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی قوم سے خطاب میں یہ اعلان کرتے کہ ختم نبوت کے عقیدے پر ہماری جانیں بھی قربان تو یہ حکومت کیا چیز ہے۔
وزیراعظم آئینی اور جمہوری نظام کے تسلسل کے لئے اپنے عہدے سے خود دستبردار ہو جاتے اور جس کے بعد پوری کابینہ خود ہی تحلیل ہو جاتی حکمران جماعت ایک اور وزیراعظم ایک نئی کابینہ کے ساتھ لے آتی جس میں چند پرانے وزراءشامل نہ ہوتے۔یوں ختم نبوت کے متعلق حلف نامہ میں ترمیم کی غلطی جو درست کر دی گئی اسکا الزام کسی ایک فرد یا وزیر پر نہ لگتا اور حکمران جماعت کے متعلق بھڑکائے گئے مذہبی جذبات کا بھی مداوا ہوتا۔ ایسا کرنے سے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور حکمران جماعت کی عزت میں اضافہ ہی ہوتا مگر ایسے بڑے اور بروقت فیصلوں کے لئے بڑا دل چاہیے ،وہ دل جو شائد اب بھی حکمران قیادت کے سینوں میں دھڑکتا ہے۔
پاناماسیکنڈل کی تاریخ نے اب تک حکمران جماعت کو یہ تو سکھا دیا ہو گا کہ بروقت فیصلے بڑی آفتوں سے بچا دیتے ہیں۔اس وقت سب سے اہم سیاسی اور جمہوری مقصد یہ ہے کہ سینٹ اور عام انتخابات وقت پر ہونے چاہئیں، چاہے اسکے لئے حکمران جماعت کو ایک اور وزیراعظم کی قربانی ہی کیوں نہ دینا پڑے۔